Sunday, March 8, 2015

ہم اور ہمارے خواب

کبھی کبھی انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ہش سمت یعنی زمان و مکان کی چاروں سمتوں میں آگے اور پیچھے بجز ایک مہیب خلا کے کچھ نہیں۔
خلا یعنی مکمل خلا...الفاظ کا، جذبات کا، لوگوں کا، کمیونیکشن کا، ارادوں کا اور خوابوں کا۔
جب اس خالی اور خلائی صورت حال کی بظاہر وجہ فقط حامل خیالات کی حالیہ تنخواہ اور سیلف امیج میں عدم مطابقت ہو تو اس کا علاج حامل خیالات ہذا کو دو چار ڈنڈے رسید کرنے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ خیر شکر ہے کہ ہمارے برعکس ہمارے اردگرد کے لوگ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔کچھ یہ بھی کہ ہم حسب معمول کچھ عرصہ حامل خیالات ہذا رہنے کے بعد خیالات ہذا سے شدید بیزار ہو گئے۔بلا شبہ زندگی بےکار ہے اور انسان کچرا ہے اور آزادی نوع انسانی پر مسلط کردہ ایک سزا ہے مگر یہ سب باتیں تو ایک دو سال کے بچے کو بھی معلوم ہونی چاہیں۔اگر  ابھی تک سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا۔اب ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اردو شاعری پڑھنے کے باعث ہمارا مزاج سراسر کلاسیکی شاعروں والا ہوتا جا رہا ہے یعنی ایک کھٹیا پر پڑے پڑے دنیا کی یکسانیت کا شکوہ  ،  ستاروں سے آگے قدم رکھنے کے دعوے ، زمانے کی ناقدری کا گلہ ،  چیز دیگرے است کی ڈینگیں اور اچھی  یونیورسٹیوں   کے امیدواروں سے حسد۔معمول کے مطابق یہاں اردو شاعروں کی تعریفیں ہوتیں مگر اب سیاسی درستی یا پالیٹیکل کریکٹ نیس بھی بیزار کن اشیا کی فہرست میں داخل ہے۔رہی اردو شاعری کی ضرورت تو وہ اس قدر ہوتی ہے کہ اگر کبھی آپ کے گردونواح میں کوئی شعر پڑھا جائے تو پہلے مصرعے کا وسط ہوتے ہی آپ سڑا ہوا منہ بنا کر باقی شعر اٹھا لیں یا    دوسروں کے لکھے میں کیڑے نکال سکیں۔
 باقی یہ کہ ہم نے کچھ عرصے سے محسوس کرنا شروع کیا ہے کہ لوگوں کے فلسفے کا ان کی زندگی پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔لیکن فلسفہ ہمارے ہاں صرف مذاق اڑانے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے عالمی منظر نامے میں ہمیں بھی کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔خیر ہر شے کی طرح اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ہم تو کہتے ہیں کہ تہذیبوں کی ترقی کا ایک اشاریہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں فلسفہ کس قدر خطرناک ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ انسان کو خوش رہنے کے بہانے خود تراشنے چاہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اپنے ایک حال میں ایک منزل کو پہنچنے والے پراجیکٹ میں ہم بہترین انجینئر رہے، اپنے تجزیے کے مطابق۔
 یہ اور بات ہے کہ یہ ایک یک انجینئری پراجیکٹ تھا۔ضروری بات یہ ہے کہ ہم خوش ہو لیں اس سے پہلے کہ ہماری پیش کردہ تھیوری کی ایسی کی تیسی ہو اور ہم ٹپیکل سانپ اور سیڑھی فیشن میں ایک طویل سانپ کی دم سے لٹکتے رہ جائیں۔ طوالت جو وقت نے ہماری زلفوں میں نہیں رہنے دی۔ اسے بھی ہم نے بڑھی ہوئی عمر کا مسئلہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔مرکزی مسئلہ یہی ہے کہ ہم بہت جلدی بلکہ لڑنے سے قبل ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ زمانے نے کبھی چپکے سے ہماری ساری مزاحمت ، ساری بغاوت چھین لی ہے۔کبھی کبھار جو جی چاہتا تھا کہ ہم اپنی تحریروں سے کہیں آگ لگا دیں تو اب فقط ہماری تحریریں خود آگ لگنے کے قابل رہ گئی ہیں۔لیکن انسان یعنی ایک سیلف کریکٹنگ مشین ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ اپنا تجزیہ کر کے اپنا رویہ درست کریں اور کرتے رہیں۔ باقی ہم نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اگر انسان کو شوق ہو تو شست باندھ کر سنجیدگی سے چاند کا نشانہ ضرور لینا چاہیے۔ قسمت کے لکھے پر راضی ہونے کے لیے اس کے بعد بڑا وقت پڑا ہے۔بڑی عمر میں لاکھ برائیاں سہی مگر ایک خوبی بہت بڑی ہے کہ انسان بہت سی چیزیں پرسپیکٹو میں دیکھنے لگتا ہے۔چھاجوں برستی بارش میں پھنسے ہوئے گھنٹوں میں جب ہم ان سیڈ ورڈز کے تصور پر غور کر رہے تھے تو ہمیں اپنے بچارے بلاگ کا خیال آیا۔ ویسے بھی جب کہ ہم آج کل مجھے تمھارے صابن کے بلبلوں سے حسد ہے گنگنایا کرتے ہیں تو اس کا حق تو پھر زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ ہر وقت جذباتی کچرا ساتھ لیے پھرنے سے بھی ہم بیزار ہیں کہ یہ وقت غیر متعلقہ اشیا کو کک مار کر دور پھینکنے کاہے ، ناسٹلجیے کا مریض بن کر رہنے کا نہیں۔
بالائے خط:  رات گئے شہر کے کیچڑ، ٹھنڈے پانی اور بے تحاشا ٹریفک میں چار گھنٹے سے اوپر تفریح کرنے سے  بارش کا سارا بھوت اتر گیا۔

2 comments:

  1. آپ کی تحاریر کافی عرصے سے زیر مطالعہ ہیں خود کو کافی روکنے کی کوشش کی پر میں کہنے پر مجبور ہوں آپ کی تحاریر بے انتہا الجھاوَ کا شکار ہیں ایسے میں یوگا کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے :)
    میم عین

    ReplyDelete
  2. جناب میم عین، کچھ دیر کو ' کوشش کی' کے بعد ختمہ لگا کر پڑھا اور لطف اٹھایا۔
    بہرحال،نہایت شکریہ زیر مطالعہ رکھنے کا۔ تنقید یہاں بہت پسند کی جاتی ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں خود پر گوگول ہونے کا شبہ ہونے لگتا ہے ۔
    الجھاؤ تو خوب پہچانا آپ نے مگر نروان حاصل ہو جائے تو پھر بلاگ کون کافر لکھے گا۔ کچھ یہ بھی ہے کہ قابل فہم تحریر لکھوانے کے پیسے ہوا کرتے ہیں۔ خیر آپ کی تجویز، تجاویز کی فہرست میں ڈال دی گئی ہے اور کوشش ہو گی کہ آئندہ تحریر میں کچھ مفہوم بھی ہوا کرے۔

    ReplyDelete