Wednesday, September 28, 2016

ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم اپنے اندر کی ویرانی ساتھ لیے پھرتے ہیں مگر اس پر ہم فی الحال غور کرنے کو تیار نہیں۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ براعظم بدلنا آسان ہےاور خود کو بدلنا مشکل۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہمیں سنجیدگی سے سارتر کی تبلیغ کی گئی یعنی کہ ایگزسٹنس پریسیڈس بینگ لیکن ہم کہ ازل کے شکست خوردہ ہیں ، اس پر ایمان لانے  کو تیار نہیں۔ سارتر کی سب سے پیاری بات تو ہمیں وہی لگتی ہے یعنی کہ جہنم سے مراد ہے، غیروں کے ساتھ ناشتہ۔ویسے سچ یہ ہے کہ ناشتا تو کیا، اب ہم لنچ ڈنر سب اکیلے ہی کرتے ہیں اور جب ایک مرتبہ ہمیں ناشتے پر کمپنی میسر ہوئی تو اس سے ہم کافی زیادہ لطف اندوز ہوئے۔  شاید انسان تھوڑا بہت تبدیل ہو ہی جاتا ہے کبھی کبھار لیکن ہمارے تو خارجی عوامل تبدیل بلکہ یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔
رہے ہم تو خدا جانے کس سے وہ اپنی خو نہ چھوڑیں  گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں کی شرط باندھ کر اس دنیا میں آئے ہیں کہ کہیں تبدیل ہو کر نہیں دیتے۔ ہمارے اندرونی مسائل آج بھی وہی ہیں کہ جو تھے۔ ہاں اپنی عمر بلکہ معمر العمری کا لحاظ کر کے ہم نے اماں کو ستانا چھوڑ دیا ہے اور صبح شام انھیں فون پر میں خوش ہوں کی تسبیح سنایا کرتے ہیں۔ رونا دھونا کوئی ایسا ناگزیر عمل نہیں  جس کے بغیر زندگی نہ گزر سکے اور دل کی بھڑاس نکالنے کو بلاگ کیا کم ہے۔
خیر زندگی تو کس شے کے بغیر نہیں گزرتی۔ ہم تو خیر روبوٹ واقع ہوئے ہیں لیکن سمجھوتا کرنا انسان کے خمیر میں شامل ہے، چاہے رو دھو کر کرے یا خاموشی سے۔ہمیں خاموشی پسند ہے۔
بہرحال آج کی آہ و زاری کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہمیں ابھی بھی لوگ لفٹ نہیں کراتے اور اگر کرائیں بھی تو مستقل نہیں کراتے یہاں تک کہ ہمارے پیغامات کی لمبی قطار کے جواب میں ایک آدھ لفظ موصول ہوتا ہے اور ہم خود داری کے مارے پوچھتے بھی نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔یہاں متعلقہ بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی قسمت کا مارا لفٹ کرا ہی دے تو ہم ایک سو اسی کے زاویے پر مڑ کر سرپٹ بھاگ نکلتے ہیں اور یہ نصف صدی کا قصہ ہے،
دو چار برس کی بات نہیں۔ چلیے ربع صدی سہی مگر یہ ذکر ہم ابھی چھیڑنا نہیں چاہتے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری انسانوں سے دوستی کیوں نہیں ہوتی چاہے ہم دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں۔
برف ہماری طرف ابھی پڑنا شروع نہیں ہوئی لیکن ہمیں اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ہم تو اگست میں بھی فروزن تھے سو دسمبر میں بھی رہیں گے۔
اور پھر ہم کہتے ہیں کہ انسانی تعلقات ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ ایک تازہ سابقہ دوست کے الفاظ میں، ویری انٹرسٹنگ۔