Sunday, November 22, 2015

الماری سے نکالے جانا


لوگوں کی الماری میں ڈھانچے ہوا کرتے ہیں اور ذرا دلچسپ قسم کے۔ ہم جیسا انسان جو ماضی، حال اور مستقبل سے  یکساں طور پر مبرا ہو، اپنی الماری میں فقط دوسروں  کی پسند کے  کپڑے پاتا ہے اور وہ بھی گول مول کیے ہوئے بغیر تہہ کے جو شارٹ نوٹس پر  کوئی انسان نکال کر پہن بھی نہ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نوع انسانی سے  چھچھلتا ہوا تعلق رکھنے کے باعث دھڑلے سے انھی شارٹ نوٹس پر نکلے ہوئے  کپڑوں میں انٹرویو دینے بھی چلے جاتے ہیں۔

ماضی ، حال اور مستقبل سے ہمارے تعلقات یکساں طور پر کیوں منقطع ہیں، یہ بھی سنتے جائیے۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہم کچھ انسانوں سے واقف ہوا کرتے تھے مگر پھر جیسا کہ رسم دنیا ہے، ان رشتوں پر وقت کی گرد پڑتی گئی، پڑتی گئی اور پڑتی گئی یہاں تک کہ اب گرد کے سوا  کچھ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا ۔ ہماری اینٹی سوشل ٹینڈینسیز کو جلا ملی کالج میں اور پھر نوکری پر پہنچنے کے بعد تو ہم ہر قسم کے جھنجھٹ سے آزاد ہو گئے۔ حال ہمارا یہ ہے کہ لوگ ہمیں صبح میں  باس کے پاس  بیٹھے ہوئے دیکھ لیں تو انھیں بھی سلامتی کے دائرے سے نکال دیتے ہیں کیونکہ شاید انھیں بھی اتنا تو اندازہ ہے کہ ایک کھڑا ہوا بندا ایک بیٹھے ہوئے بندے کو سلام کرے اور برابر میں  بیٹھے ہوئے  دوسرے بندے کو قطعا نظر انداز تو بہرحال تھوڑا سا آکورڈ تو ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ایسے موقعوں پر ہم دل ہی دل میں دانت ضرور نکالتے ہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ اپنی نحوست کا قصہ  بآواز بلند  چھیڑیں مگر افسوس ان بے شمار سخن ہائے گفتنی پر جو خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے۔ ہمارے  حالیہ باس اس دفتر میں ہمیں انسان  کے آس پاس کی شے سمجھنے والے واحد شخص ہیں لیکن اب شاید ہمیں کسی اور کے سر منڈھ دیا جائے اور ہمیں پھر سے انٹیلیجینٹ فرنیچر کا ٹکڑا بن کر زندگی گزارنی پڑے۔

انٹیلیجینٹ فرنیچر جو سسٹم ڈیزائننگ جانتا ہو۔

اپنا دل بہلانے کو ہم کہا کرتے ہیں کہ ہم اس دفتر میں یوں رہتے ہیں جیسے میر کسی محفل میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی ہم خود سے ہی کہا کرتے ہیں کیونکہ اول تو ہم کسی  غیر سے کچھ کہتے نہیں اور دوئم میر کو میر ناشناسوں کے سامنے بیان کرنے کی جہالت کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔

یہاں ہم یہ بھی اعتراف کرتے چلیں کہ ہر ہاتھ سے جاتی ہوئی چیز کی طرح ان کی قدر بھی ہمیں اب محسوس ہو رہی ہے۔ چونکہ ہم ان کو برا بھی یہیں کہتے رہے ہیں تو اب بھلائی کا سرٹیفیکیٹ بھی یہیں دیں گے۔ مستقبل کے بارے  میں ان کی دلسوزی سے دی گئی کرئیر ایڈوائس  کا شاید ہم پر کبھی کوئی اثر بھی ہو۔ کبھی یہاں سے تشریف لے گئے تو اپنی تمام دکھی داستانیں ان  بیچارے کے کانوں میں انڈیل کر جائیں گے، اگر یہ اس وقت تک موجود رہے تو۔ 

بہرحال ان کی تعریفوں کے لیے ہم اپنی خود نوشت میں ۔میرا پہلا انسانی باس۔ کے نام سے ایک باب مختص کریں گے۔ویسے ان سے پچھلے باس بھی ہمیں انسان سمجھا کرتے تھے مگر وہ اتنے بڑے ہیں کہ ہم ان کے سامنے بالکل چوں چراں نہیں کرتے۔ فی الحال ہمارا مقصد تھا ، نوع  انسانی سے اپنے کٹے ہوئے ہونے کی تصویر کشی کرنا اور امید ہے کہ ہم اس میں کچھ کچھ  کامیاب ہو گئے ہوں گے۔

تو ایسے انسان کو جسے اپنے دفتر سے  دی ان ٹچ ایبلز آف ایکس وائی ایکس لکھنے کی شدید تحریک ملتی ہو اور جسے معلوم ہو کہ اس کی کنویں کنارے تصویر پر بھی سوشل میڈیا پر واحد تبصرہ اس کے کنڈل ٹچ کے  حالیہ کوارڈینیٹیس کے بارے میں ہو گا اور جس کا نام کائنات کی اجتماعی اگنور لسٹ میں کہیں اوپر اوپر پایا جاتا ہو اور جسے اپنے ملک میں رہتے ہوئے نارمل انسانوں سے دو نارمل جملے کہنا ناممکن لگتا ہو، اس کے لیے خاصا انوکھا تجربہ ہے، اپنا لکھا ہوا ادھر ادھر بٹتے ہوئے دیکھنا۔

ناپسندیدہ کپڑوں کے علاوہ ہماری الماری میں ایک اور چیز بھی پائی جاتی ہے اور وہ ہیں کاغذ۔ کاغذ ہی کاغذ، ہر قسم کی بکواس سے سیاہ   کاغذ۔ زیادہ تر تو اس زمانے کی یادگار ہیں جب ہمیں اینٹینوں اور اوپریشنل ایمپلافائرز پر دھیان دینا چاہیے تھا اور غلط وقت پر غلط چیزوں پر دھیان دینے کی روایت کے مطابق ہماری دلچسپی ادب میں ہوا کرتی تھی۔ دیکھیے شعر بذات خود ذرا غلط چیز ہیں مگر ان کا صحیح وقت استعمال ، مثلا کسی کے سامنے پھینکنے کے لیے، بڑی کلاس کی حرکت ہے مگر مائیکرو ویوز پڑھنے کے وقت پر شاعری کی کتاب کھول کر بیٹھ جانا بے حد گھٹیا کام ہے۔ کتنا گھٹیا، اس کا اندازہ  اب گریجویٹ سکولوں کے داخلہ شدگان کے اوسط جی پی اے دیکھنے سے ہوتا ہے۔

یہ تو شاید ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم اوائل شاعری میں اپنے لکھے سے دنیا میں آگ لگانے کا سوچا کرتے تھے مگر ہماری اماں کی رائے میں اس فعل کا مناسب مفعول خود ہماری شاعری ہے۔ وہ بھی یوں کہ انھیں ہم نے آج تک ایک سطر نہیں پڑھنے دی  ( وہ واحد شعر بھی نہیں جو ہم نے خالص ان کے لیے کہا تھا، خریدیں گے منافع دے کے اپنا، ترے سب ہی خسارے ڈھونڈتے ہیں ) ورنہ وہ فاعل کا فریضہ خود سنبھالنے کی سوچیں اور مفعول کا ہمیں تھمانے کی۔

بہرحال تو اب ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ دنیا نہ تو کسی کو خوش رہنے دیتی ہے، نہ آئیڈئیلسٹ اور نہ ہی الماری میں۔

ایک شام ہم نے یونہی ایک اخبار کا ادارتی صفحہ کھولا اور ایک  فکاہیہ کالم پر نظر ڈالی جو ہم کبھی شوق سے پڑھا کرتے تھے، جب ہم سیاسی نابالغ ہوتے تھے اور اس کے لکھنے والے ادبی بالغ۔ اس میں ایک شعر نما شے پر غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ ایسی بات ہم بھی کبھی کہہ چکے ہیں مگر وزن میں۔ خود پر ادبی سرقے کا الزام لگاتے ہوئے جب  انٹرنیٹ پر اصل شاعر کو تلاش کرنے کی سعی کی تو کھلا کہ ہماری شاعری لوگوں نے چھ آٹھ جگہ بانٹ رکھی ہے اور وہ بھی زیادہ تر غلط حالت میں۔تہہ دل سے مانتے ہیں کہ ہماری شاعری نری بکواس ہوتی ہے لیکن اسے درست طور پر نقل نہ کیا جائے تو یہ انتہائی بکواس کو جا پہنچتی ہے ۔ پھر ہمارے شعر کو کوئی دھکا دے کر وزن سے گرا دے، یہ  ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود برداشت نہیں ہو رہا۔ اخلاق تو ایک نظریے کےمطابق مڈل کلاس کے بھیڑ پنے  کے سوا کچھ بھی نہیں مگر وزن ، جناب من، بڑی ہی اہم چیز ہے۔

پھر لوگوں نے جابجا ہماری باتیں تقسیم کی ہی کیوں، یہ بھی ہم سے ہضم نہیں ہو رہا۔ کبھی اپنی شاعری چھپوائی تو اس فقرےکے ساتھ چھپوائیں گے : خبردار، اسے شاعر  ( جی ہاں، شاعر) کی اجازت کے بغیر ہرگز نہ پڑھا جائے۔ اور  سمجھ لیجیے کہ شاعر کی اجازت آپ کے لیے نہیں ہے۔وجہ آپ کو آئینے میں نظر آ جائے گی۔ 

یہ دنیا۔۔ایک تو یہ دنیا ہماری سمجھ میں نہیں آتی، جبھی تو ہم ریاضی اور وی ایل ایس آئی ڈیزائن پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ دنیا اگر دفتر میں ہو تو ہم سے ایسا سلوک کرتی ہے کہ ہمیں اپنے وجود رکھنے پر خطرناک قسم کے شبہات ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی سڑکوں پر ہو توخواہ مخواہ گھورتی ہے۔ کالج میں اس نے فقط ہماری تعلیم اور شخصیت میں خلل اور خلائل ڈالے ہیں۔انٹرویو  پینلوں ،داخلہ کمیٹیوں اور ادارتی بورڈوں  میں بیٹھ کر یہ ہمیں سراسر مسترد کیا کرتی ہے   اور عام زندگی میں جب ہمیں نظر انداز نہ کرےتو ذلیل کر رہی ہوتی ہے۔

پھر جب یہ ہماری اجازت کے بغیر ہمارے لکھے پر کچھ کرے ، چاہے وہ واہ واہ ہی کیوں نہ ہو، تو ہم سے رہا نہیں جاتا۔

اسی دنیا میں لوگوں کی کئی کئی دہائیوں تک لمبے چوڑے ملکوں پر مطلق العنان مرضی چلتی ہے مگر ہمارا ا پنے الفاظ تک پر کوئی اختیار نہیں۔ آج کل تو بالکل بھی نہیں کیونکہ  اپنی چوبیسویں سالگرہ پر بڑے سے  کیک  کا آدھا حصہ کھانے کے بعد ہم بے حد  زہریلے اور بے نیاز  ہو گئے ہیں۔ شاید کچھ حصہ اس احساس کا بھی ہو کہ زندگی میں باتیں دل میں رکھنے کا وقت نہیں ہوتا اس لیے جو محسوس ہو وہ تحریر کرنے کے علاوہ مدمقابل کے منہ پر فورا فورا مار دینا چاہیے اس سے پہلے کہ پارا   دوبارہ اپنے نارمل درجے تک گر جائے جو ہمارے کیس میں نقطہ انجماد کے آس پاس ہے۔ 

خدایا، ہمیں ایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ کسی اچھی جگہ پہنچا دے۔ یہ ساری بکواس اپنے سسٹم سے مکمل طور پر نکال کر، پھینک کر اور آگ لگا کر جائیں گے۔ اور کام کرنے کے وقت پر اپنے بلاگ کا کندھا ڈھونڈنے کی عادت بھی۔ 


Saturday, September 19, 2015

(اولیور ٹوئسٹ ہیز آسکڈ فار مور ( ایف پی جی اے


یا ، دو برس غلامی کے۔


شروع میں ہی اعلان مجبوری کرتے چلیں کہ ہمیں اپنے قلم کی حد سے بڑھی ہوئی نرگسیت کا اندازہ ہے اور ہم اس کی اصلاح کے متمنی بھی ہیں۔ دنیا میں پچاس ہزار کام کی چیزیں ہوں گی اور ان میں سے کچھ ہمیں متاثر بھی کرتی ہیں مثلا سابق یونانی وزیر خزانہ کی موٹر سائکل پر رخصتی اور دنیا میں لوگوں کا گھر سے بے گھر ہونے کا المیہ مگر ہمارے پاس ان پر خامہ فرسائی کرنے کے لیے نہ تو علم ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ انسانی المیے تو اپنی جگہ ایک ایک ناول کے متقاضی ہیں کہ انسانوں کو اپنی جڑیں بدست خود اکھاڑ کردربدر بھٹکنے پر مجبور کرنا بہت ہی بڑا ظلم ہے۔یہ ایک اور ظلم ہے کہ ان کے ٹھکانہ بنانے کو کوئی جگہ بھی نہ ہو۔ اور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جڑیں اکثر پورے طور پر اکھڑتی بھی نہیں ہیں۔ ہم کہ اپنے ہی ماحول میں سارا وقت کسی آؤٹ کاسٹ کی طرح گزارتے ہیں، اسے کچھ کچھ سمجھ سکتے ہیں مگر اس پر ایک کہانی لکھنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتے۔


اگرچہ ہمارے کانوکیشن کی سالگرہ بھی قریب ہے اور ہماری اپنی بھی مگر ان دونوں مواقع کو ہم کوئی خاص درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ البتہ انھی تاریخوں میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا جس نے ہماری آنے والی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے، یعنی نوکری کا مل جانا۔ اب دو سال بعد ذرا جائزہ لینے کا سوچتے ہیں کہ پلٹ کر نگاہ ڈالیں تو ہمیں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔ نوکریاں پچاس ہزار طرح کی ہوتی ہیں اور ہماری والی کا شمار بور ترین میں ہوتا ہے جس میں بار بار ہمارے دل کے ٹوٹنے کے سوا کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آتا۔


منطق کی رو سے دیکھا جائے تو شاید مسئلے کی جڑ ہمارے دل کی ٹوٹنے کی انفنٹ کیپیسیٹی ہے۔


خدا لگتی بات ہے کہ ہمیں گھر میں ہی سہی مگر بری طرح اوور رئیکٹ کرنے کی بیماری ہے اور ہم بعض اوقات لوگوں سے ایک دم بدگمان ہو جاتے ہیں مگر آنکھوں دیکھی حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ ابھی حا ل میں ہی ہم نے اپنے برابر کے چھوکرے کو ایک نئے بچے کا انٹرویو لیتے ہوئے دیکھا تو پھر وہ آگ صبح تک نہ بجھی شام کی لگی ۔ اسے بیان کرنے کے لیے کوئی قادرالکلام شاعر توشاید کفایت کر جائے مگر ہم اس کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے قابل نہیں۔ ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ بارہا کا تجربہ ہے کہ جب ہم انٹرویو دینے کہیں پہنچتے ہیں جہاں انٹرویو لینے والے پہلے سے ہی ہمارے گھائل ہوتے ہیں تو وہاں بھی دو مربوط جملے بولنے میں ناکام ہو کر صفر نمبر لے کر لوٹ آتے ہیں۔ قصور اس میں بھی دنیا کا ہے۔ اب لوگ اگر ایف پی جی اے کی تعریف پوچھیں تو ہم لو آف مائی لائف اور بین آف مائی ایگزیسٹینس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ اول الذکر تو وہ عرصے سے ہیں، اور موخر الذکر یوں کہ ان کے لیے اب ہم دنیا سے لڑنے والے ہیں جس کا ذکر آگے آئے گا۔


انڈسٹرئیل ایرئے کے ماحول نے ہماری غیر نثر کو تو جو کھایا ہے سو کھایا ہے، تخیل بھی بے حد پست کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری تمام تر فینٹسیز جو پہلے کبھی ستاروں سے آگے والے جہاں مسخر کرنے کے بارے میں ہوا کرتی تھیں، اب صرف ایک دن بند آنکھوں سمیت صبح سویرے فون پر استعفی دینے کے بارے میں رہ گئی ہیں۔


کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہم بزدلی کے مارے استعفی بھی نہیں دے سکتے اور حقیقت کے نزدیک ترین صرف یہی صورت رہ جاتی ہے کہ کسی سے بدتمیز ی کریں اور کھڑے کھڑے داغے جائیں یعنی فائر ہو جائیں۔ مزید کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم کسی سے غیر تحریری بدتمیزی کرنے کے بھی قابل نہیں۔


ایک صاحب کو میڈل دینا چاہتے ہیں جنھوں نے ایک دوست کو مشورہ دیا تھا کہ اس جگہ سے بھاگ جاؤ، یہاں لوگ تمھیں آگے نہیں جانے دیں گے۔ یہاں بھی سچ یہ ہے کہ اس میں کسی انسان کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہاں سسٹم ہی کچھ ایسا ہے۔


مسئلہ شاید یہ بھی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری توہین واقعی میں ہوئی ہوتی ہے یا یہ محض ہمارا وہم اور خالی دماغ ہے۔کاش ہم کبھی یہ پہچاننے کے لیے ایک کمپیوٹر پروگرام بنا سکیں۔


ایک مرتبہ محسوس ہوا کہ ہماری ساری نام نہاد ٹیم ایک نئی جگہ شفٹ ہو رہی ہے، ہمارے سوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم بھی کسی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اپنے تئیں اس نام نہاد ٹیم میں ہم ہر لحاظ سے درمیان میں آتے تھے مثلا بلحاظ عمر، تجربہ ، کام کرنے کا جذبہ ، قد، وزن ، رنگت وغیرہ وغیرہ لہذا یہ یکایک نارمل ڈسٹریبوشن کے آخری سرے پر دھکیلے جانا کچھ ہضم نہیں ہوا۔ خلاف عادت پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ہمارے مینیجر نے بہت ( یا شاید کافی ) سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے اور یہ نیچرل سی بات ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم ٹھنڈے پڑ گئے کیونکہ دراصل پریشانی اس بات کی تھی کہ فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے۔ خیر انھیں احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ انھوں نے ہم سے پوچھے بغیر خود ہی فرض کر لیا ہے کہ ہم یہاں بہت ہی پارٹی ماحول میں رہتے ہیں اور نئی جگہ پورا دن خاموش رہ کر بور ہوں گے ( حالانکہ ہم ویسے ہی کان آنکھیں بند کر کے اپنی دنیا میں رہتے تھے) تو انھوں نے دنیا کا منحوس ترین لفظ یعنی سوری بول کر اپنی گردن چھڑا لی۔


منحوس ترین یوں کہ ہم ایک ایسے بچے سے واقف ہیں جواپنا حق سمجھ کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہے اور پھر ایک دلربا مسکراہٹ مع سوری پھینک دیتا ہے۔ پھر اگر عمر کا گریڈئنٹ اتنا ہو جتنا ہمارے اور ہمارے مینیجر کے درمیان ہے تو شکایت کنندہ تو نظریں اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔


ایک ہفتے تک سڑا ہوا رہنے ( جس کی محاورے کے مطابق ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوئی) اور ایک دن کا کام پانچ دن میں کرنے کے بعد نتیجہ نکلا کہ ہماری پہلی وفاداری بہرحال اپنی کمپنی سے ہے ۔ اس کی روشنی میں ہم نے اپنا پیسو اگریسو رویہ ترک کیا اور انھیں ایک جملے کی مار مارنے کے بعد کہ سر آپ نے تو اپنی ٹیم سے ہمیں نکال ہی دیا ہے، اپنا دل صاف کر کے دوبارہ کام میں لگا لیا۔ خیر اس پر یہ بیچارے کہ بے حد شریف آدمی ہیں، ذرا گھبرا گئے اور چار مرتبہ ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ٹیم سے نکالنے والی کوئی بات نہیں ہے حالانکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم کبھی ٹیم کا حصہ تھے ہی نہیں۔


خیر اس کہانی کا تو یہ ہوا کہ بعد میں پتہ چلا کہ نئی جگہ میں ضرورت سے کہیں زیادہ نیا پینٹ ہے اور کہیں کم جگہ اور یہاں ہم بلاناغہ بہت سیریس قسم کی سٹیگ پارٹی کریش کیا کریں گے اور شام میں اٹھنے تک کریش کرتے رہیں گے تو تب سے ہم اس چکر میں ہیں کہ قبول ہونے کی صورت میں اپنی درخواست کیونکر واپس لیں۔ اگر لوگ پارٹی کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس میں ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہیں؟


پھر ہمیں بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمارے برابر کے لونڈے تو اور لوگوں کے انٹرویو لیں اور ہماری شکل دیکھنا لوگوں کو ہزار بار کے پیہم اصرار پر بھی نصیب نہ ہو ۔ خیر شکل نہ دکھانے پر اعتراض نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں حال میں ہی علم ہوا ہے کہ لوگ ہمیں ایک دوسرے گروپ میں شفٹ کرنا چاہ رہے ہیں جس میں ہم نے شروع کے کچھ مہینے بھی روتے دھوتے گزارے تھے۔ اب اس وقت تو ایسا سوچنا بھی محال ہے جبکہ زمانے نے ہمیں مار ڈالا ہے اورہم سوچتے ہیں کہ وہ ولولے کہاں، وہ جوانی کدھر گئی۔ پروگرامنگ بڑا پیارا کام ہے مگر صرف گھر آ کر دل بہلانے کے لیے، پورا دن ایک ہی کوڈمیں باریک باریک کیڑے نکالنے اور لمبی لمبی رپورٹیں بنانے کا اب ہمیں نہ دماغ ہے اور نہ حوصلہ۔


اور اس خیال کے آتے ہی ہمارا میٹر گھوم گیا۔


پھر ہمیں یاد آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔ اب مبہم سی درخواست تو ہم نے دے دی ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ سافٹوئیر میں کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے مگر نجانے کیوں اس کی حیثیت اولیور ٹوئسٹ کی التجا کی سی لگتی ہے۔


یہاں ہم یہ ماننے کو تیار ہیں کہ شاید مسئلہ کچھ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اب خیال آتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کی باگ ہمیشہ اوروں کے ہاتھ میں ہی تھمائے رکھی ہے اور یہ کہنے کو تو ہماری زندگی ہے مگر اسے ہمارے علاوہ اور بہت سے انجانے اور جانے لوگ گزار رہے ہیں۔ ہمیشہ، ہمیشہ ہماری طرف سے فیصلے دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں تو کبھی کبھی انسان بری طرح بیزار بھی ہو جاتا ہے۔


باقی ایک ازلی کمیونیکشن گیپ کو تو شاید کچھ عرصے میں پوری طرح قبول کر کے اپنی زندگی اسی کے گرد ری سٹرکچر کر لیں۔


سوچتے ہیں کہ استعفی تو شاید کبھی کہیں سے نہ دے سکیں ، لیکن اگر کسی انسان سے بدتمیزی کر لیں تو کام آسان ہو جائے گا۔


جملے جو ہم واقعتا ہر کوشش میں ناکامی کے بعد کسی کو لپیٹ کر مارنا چاہتے ہیں:


۔ اگر میں ایک دن چپ چاپ غائب ہو گئی تو آپ کو وجہ معلوم ہو گی۔


میں شروع میں کچھ دن تو پیسو اگریسو رہوں گی۔ پھر میری دلچسپی ختم ہو جائے گی۔


دیکھیں اگر میری کام میں دلچسپی نہ ہو تو میرا صبح سویرے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا۔


اگر کام بورنگ ہو تو میرے پاس کوئی وجہ نہیں رہ جاتی یہاں آنے کی۔


جس کام میں میرا د ل نہ ہو، وہ میں نہیں کر سکتی۔


اگر کوئی چاہے تو مفید ترین جملے کے لیے ووٹ دے سکتا ہے۔ ہماری اپنی کوشش ہو گی کہ کسی طرح گفتگو میں ان سب سے مد مقابل کو مستفید کیا جا سکے۔


ہم اچھے بھلے سٹوئک ہوا کرتے تھے مگر یہ حالات ٹھیک کرنے کے سبز باغ دکھا کر ہمارا دماغ خراب کرنے کی ساری ذمہ داری برٹرینڈ رسل پر جاتی ہے۔ اگر ہم اپنے پرانے نظریات ذہن میں رکھیں تو پہلے کی طرح خوش رہا کریں۔ شاید ہمیں اب مارکس اوریلئس پڑھنے کی ضرورت ہے۔


کبھی کبھی ہمیں ہنسی آتی ہے کہ ہم دنیا میں آگ لگانا چاہتے ہیں، اچھے وقتوں میں قلمی اور برے میں غیر قلمی ذرائع سے اور حالت یہ ہے کہ ہماری اپنی اماں کے نزدیک ہماری تحریریں خود آگ لگنے کے قابل ہیں۔


جب کبھی غصہ ٹھنڈا ہو تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اگر خدا نے چاہا تو بہت ساری شیشے کی چھتیں چھ انچ کی ہیل سے توڑا کریں گے۔


یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم یہاں سے بھاگ نکلیں مگر پھر ہمیں اپنے مقاصد پر شک ہو جاتا ہے کہ اس شہر کے کچھ دل توڑنے والوں کو چھوڑ کر ہم فقط اپنے آپ سے دور بھاگنا چاہ رہے ہیں اور صاحبو، اس میں تو آج تک کوئی کم ازکم اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔تنہائی کا ایک بنیادی اور لاعلاج احساس تو مریخ تک ہمارا پیچھا کرے گا جب ہم داخلے میں ناکامی کے بعد وہاں جانے کی کوشش کریں گے تو۔ اپنے ایگزیسٹینشئل اینگسٹ کو ہم دبا کر رکھتے ہیں مگر دماغ کے کچھ نیورونز میں اس کے درست اور انتہائی ویلڈ ہونے کا احساس انتہائی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ہمارا تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ خالی پن کی اس کیفییت کو، جو کہیں اندر سے اٹھتی ہے، کسی چیز سے پر نہیں کیا جا سکتا، نہ ادب سے، نہ فلسفے سے، نہ سائنس سے، نہ جمالیات سے اور نہ ہی انسانی تعلقات سے۔ جب مجمعے میں جا بیٹھنے کے بعد بھی انسان کی حالت ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے، اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا والی ہو اور ویرانے ہر جگہ ساتھ جا پہنچتے ہوں تو کسی دیوار سے سر پھوڑنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔


ہمارے زمانے کا عجیب المیہ ہے کہ نہ تو کہیں کوئی زندان کی دیوار نظر آتی ہے کہ اس سے سر پھوڑا جا سکے، اسے توڑنے کی کوشش کی جائے یا اس میں ایک روزن وا ہونے کی آرزو اور نہ صحرا جس کی سر میں خاک ڈالنے کے بعد سیر کی جا سکے۔ بھٹکنے کو اپنی تمناؤں کے دشت لامکاں کے سوا کچھ بھی نہیں۔محو آئینہ داری بھی ہم خود کو ہی دیکھتے ہیں اور تصویر کی طرح دیوار سے چپکے کھڑے ہونے کے لیے بھی ہمیں ۔یو گیسڈ اٹ۔ اپنی محفل کے سوا کون سا مقام سوجھتا ہے۔ زلفیں تو سب سنوار رکھتے ہیں اور پریشان حالی صرف اور صرف خیالات کے لیے مخصوص ہے۔ نہ کہیں کوئی ناصح ہے کہ جنوں کو قید کرنے کی سعی لاحاصل کرے اور شاید جنوں بھی کہیں نہیں جو اصل مسئلہ ہے۔


پھر ہمیں خیال آتا ہے کہ شاید یہ تمام تر ہمارے اندر کیمکلز کے بیلینس کا مسئلہ ہے۔


لیکن اس اصول کی رو سے ہر تحریر کے ساتھ مصنف کے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ منسلک ہونی چاہیے۔


وہ اشیا جن سے ہمیں اب کچھ امیدیں ہیں: روبوٹ، ورچوئل رئیلیٹی اور پیہم پارٹیاں۔ بس روبوٹ اس قدر سمجھدار نہ ہوں کہ ہمہ وقت ہمارے تھیراپسٹ کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے تنگ آ جائیں۔ سڑیل روبوٹ صرف دو ہی ٹھیک ہیں، ایک ہچ ہائکر گائیڈ والا مارون اور ایک ہم۔

Tuesday, March 31, 2015

قطرے پہ گہر ہونے تک


غالب   کا ذکر ٹائٹل میں ٹھیک لگتا ہے مگر ہماری داستان دراصل موم کے پتھر میں میٹا مارفاس ہونے کی کہانی ہے، اور اس کا اندازہ ہمیں اپنے پچھلے سال کے نوٹس کھنگالتے ہوئے ہوا۔

ہمارا زیادہ تر وقت ایک ایسی جگہ گزرتا ہے جہاں اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے کی طرح اپنے لطیفوں اور حالات حاضرہ پر کمینٹری پر خود ہی ہنسنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اپنے برجستہ تبصرے روز کے روز لکھتے جاتے ہیں۔ اگر کبھی اس سے کچھ ملنے کا امکان ہو تو اپنے روزنامچے مرتب کر کے سال بہ سال چھپوایا کریں۔ اگرچہ اس میں بھی دو بنیادی مسائل ہیں، پہلا یہ کہ اشاعت کے بعد بھی اس کے کل قارئین اتنے ہی ہوں گے جتنے کہ اشاعت سے قبل، یعنی کہ ایک، یعنی کہ ہم۔ دوسرا یہ کہ ہم کہ زندگی، خوابوں اور گفتگو میں بہت لحاظ رکھنے کے قائل ہیں، اس میں اپنے پبلک پرسونا کے برخلاف بلا روک ٹوک لکھتے چلے جاتے ہیں لہذا ا قارئین کے وجود رکھنے  کی صورت میں گر اسے سنسر کر کے شائع کریں تو بچارا روزنامچہ نہیں بچے گا اور اگر بغیر کانٹ چھانٹ کے دنیا میں نکال دیں تو ہم نہیں بچیں گے۔

خیر خیال ہمیں یہ آیا کہ ہماری خود اعتمادی کا گراف ایک سال کے اندر اندر کس قدر ترقی کر گیا ہے۔ پہلے ہم دفتر میں سب سے نکمے اور بے کار انسان ہوا کرتے تھے اور ہمہ وقت یہ راگ بھی الاپتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ نوبت آئی کہ ہم اپنے سی ای او کے بعد سب سے اچھے انجینئر شمار ہونے لگے۔ یہاں دھیان رہے کہ یہ ساری کی ساری رینکنگ ہماری طرف سے تھی اور اس کا علم ہمارے اور ہمارے خدا کے علاوہ صرف ہماری اماں کو ہوا کرتا تھا۔اب ہمیں حسب معمول خود سے زیادہ سمجھدار کوئی دکھائی نہیں دیتا۔اس فقید المثال ترقی کا حل تو اب ہماری سمجھ میں فقط یہ آتاہے کہ یہاں سے بھاگ نکلیں ۔

اپنے خیالات روزانہ کی بنیاد پر مرتب کرنے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اپنے ماضی کا بخوبی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔آج کل کہیں کہیں کھلے ہوئے پھول دیکھ کر ہم یاد کرتے ہیں کہ گزشتہ بہار میں ہم کس قدر دکھی بلکہ میلنکلی ہوا کرتے تھے۔ ہم لوگوں کی زندگی سے دس ہزار مرتبہ کک آؤٹ ہونے پر تیار ہیں بشرطیکہ ہمیں اس کی وجہ بتا دی جائے۔باقی انسانوں والے نخرے تو اپنی جگہ رہے کہ کم از کم  کک کھانے والے کو اتنی عزت تو دی جائے کہ فاعل ایک مرتبہ  اسے روبرو اس کی  باضابطہ اطلاع دے ، پھر بے شک اس میں مفعول کی کم صورتی کا ذکر ہو، ہم چنداں معترض نہ ہوں گے۔  علت اور معلول کے خوگروں کی    سمجھ میں جو بات   نہ آئے ، کہیں بڑی مضبوطی سے کھب جاتی ہے اور کھبی رہتی ہے۔ اگر کبھی تنگ آ کر صحرا کو نکلے تو لیلی لیلی کے روایتی نعرے کے بجائے ریزن ریزن گایا کریں گے۔ یوں بھی آج کل ہم اپنی مہینوں کی شبانہ روز محنت کے باوصف ایک تکنیکی مسئلے کی وجہ جاننے سے غیر تکنیکی لوگوں کے باعث محروم رہنے کے سبب کچھ زیادہ ہی زود رنج ہیں۔ آہ، یہ غیر تکنیکی، غیر منطقی لوگ۔۔


خیر کک آؤٹ ہونا بھی ایک مفید تجربہ ہوتا ہے جس سے انسان کو بہت سی باتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ہماری ایک دوست کہا کرتی تھیں کہ یہ دنیا داہنے ہاتھ والے مردوں کی ہے۔ ہم اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ یہ دنیا کچھ بھی ہو، کم از کم حساس اور سوچنے والی خواتین کی ہرگز نہیں ہے یعنی ایسی خواتین جن کا ایمپلی فائی بھی زیادہ کام کرتا ہو اور پروسیسر بھی۔ ایسے ہارڈ وئیر کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ انسان معمولی معمولی باتوں پر ضرورت سے کہیں زیادہ غور کرتا رہتا ہے اور پھر شور بڑھتا چلا جاتا ہے، بڑھتا چلا جاتا ہے، بڑھتا چلا جاتا ہے۔

شور کی اس یلغار سے گھبرا کر ہم نے اب اپنے سینسر بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔رہا پروسیسر تو اسے اب لوگوں کے بجائے کام کے کام میں لگایا کریں گے۔زود رنج لوگوں کی دنیا میں کوئی زیادہ اچھی جگہ نہیں ہوتی اور ہر وقت کا مسخرا پن اور حماقت بہت بری طرح گلے پڑتی ہیں۔

سوشل آکورڈنیس اور حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کے خول کو خدا خدا کر کے اتار پھینکنے کا فیصلہ تو ہم نے کر لیا ہے لیکن ہے یہ مشکل کام۔ خیر ۔ دیکھیے اب کے غم سے جی مرا۔ ایک ہی خول میں آخر کتنا عرصہ بند رہا جا سکتا ہے؟

ایک اور نتیجہ ہم نے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ انسان کی زندگی سانس کی آمد و رفت سے بڑھ کر جیتے جاگتے خوابوں سے عبارت ہے۔ چھوٹے بڑے خواب انسان کے اندر دوڑتے ہیں اور اگر انھیں مار دیا جائے تو زندگی، زندگی کہلانے کے کوئی خاص قابل نہیں رہ جاتی۔ خواب چاہے مریخ کے ہی ہوں لیکن اہمیت رکھتے ہیں اس لیے کہ ان کو پورا کرنے کے لیے انسان جدوجہد کرتا ہے، منصوبے بناتا ہے، غور و فکر کرتا ہے اور کبھی کبھار کی خوشی کے لیے بہت سے غم برداشت کرتا ہے۔ اگر خواب نہ ہوں تو ان کی جگہ صرف ایک خلا یعنی ڈپریشن رہ جاتا ہے جسے مین از کنڈیمڈ ٹو بی فری جیسے درست مگر غیر متعلقہ سوالوں سے پر نہیں کیا جا سکتا صرف مزید گھمبیر کیا جا سکتا ہے۔ برگساں سے اختلافات اپنی جگہ مگر جوشش حیات سے بھرپور اندھا دھند منزلیں مارتا قافلہ، حیات انسانی کی بہت اچھی     تمثیل ہے۔

آج کل ہم اپنے آپ کو کچھ اس نوع کی نصیحتیں کرتے ہوئے پائے جاتے  ہیں۔ تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی ۔ اٹھو، تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو۔

خدا جانے اردو شاعری کے ماروں کو اپنے تمام مسائل کا حل گھوم پھر کر اردو شاعری میں ہی کیوں ملتا ہے۔

Sunday, March 8, 2015

ہم اور ہمارے خواب

کبھی کبھی انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ہش سمت یعنی زمان و مکان کی چاروں سمتوں میں آگے اور پیچھے بجز ایک مہیب خلا کے کچھ نہیں۔
خلا یعنی مکمل خلا...الفاظ کا، جذبات کا، لوگوں کا، کمیونیکشن کا، ارادوں کا اور خوابوں کا۔
جب اس خالی اور خلائی صورت حال کی بظاہر وجہ فقط حامل خیالات کی حالیہ تنخواہ اور سیلف امیج میں عدم مطابقت ہو تو اس کا علاج حامل خیالات ہذا کو دو چار ڈنڈے رسید کرنے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ خیر شکر ہے کہ ہمارے برعکس ہمارے اردگرد کے لوگ عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں۔کچھ یہ بھی کہ ہم حسب معمول کچھ عرصہ حامل خیالات ہذا رہنے کے بعد خیالات ہذا سے شدید بیزار ہو گئے۔بلا شبہ زندگی بےکار ہے اور انسان کچرا ہے اور آزادی نوع انسانی پر مسلط کردہ ایک سزا ہے مگر یہ سب باتیں تو ایک دو سال کے بچے کو بھی معلوم ہونی چاہیں۔اگر  ابھی تک سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا۔اب ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ضرورت سے زیادہ اردو شاعری پڑھنے کے باعث ہمارا مزاج سراسر کلاسیکی شاعروں والا ہوتا جا رہا ہے یعنی ایک کھٹیا پر پڑے پڑے دنیا کی یکسانیت کا شکوہ  ،  ستاروں سے آگے قدم رکھنے کے دعوے ، زمانے کی ناقدری کا گلہ ،  چیز دیگرے است کی ڈینگیں اور اچھی  یونیورسٹیوں   کے امیدواروں سے حسد۔معمول کے مطابق یہاں اردو شاعروں کی تعریفیں ہوتیں مگر اب سیاسی درستی یا پالیٹیکل کریکٹ نیس بھی بیزار کن اشیا کی فہرست میں داخل ہے۔رہی اردو شاعری کی ضرورت تو وہ اس قدر ہوتی ہے کہ اگر کبھی آپ کے گردونواح میں کوئی شعر پڑھا جائے تو پہلے مصرعے کا وسط ہوتے ہی آپ سڑا ہوا منہ بنا کر باقی شعر اٹھا لیں یا    دوسروں کے لکھے میں کیڑے نکال سکیں۔
 باقی یہ کہ ہم نے کچھ عرصے سے محسوس کرنا شروع کیا ہے کہ لوگوں کے فلسفے کا ان کی زندگی پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔لیکن فلسفہ ہمارے ہاں صرف مذاق اڑانے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے عالمی منظر نامے میں ہمیں بھی کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔خیر ہر شے کی طرح اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ہم تو کہتے ہیں کہ تہذیبوں کی ترقی کا ایک اشاریہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ہاں فلسفہ کس قدر خطرناک ہے۔پھر یہ بھی ہے کہ انسان کو خوش رہنے کے بہانے خود تراشنے چاہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اپنے ایک حال میں ایک منزل کو پہنچنے والے پراجیکٹ میں ہم بہترین انجینئر رہے، اپنے تجزیے کے مطابق۔
 یہ اور بات ہے کہ یہ ایک یک انجینئری پراجیکٹ تھا۔ضروری بات یہ ہے کہ ہم خوش ہو لیں اس سے پہلے کہ ہماری پیش کردہ تھیوری کی ایسی کی تیسی ہو اور ہم ٹپیکل سانپ اور سیڑھی فیشن میں ایک طویل سانپ کی دم سے لٹکتے رہ جائیں۔ طوالت جو وقت نے ہماری زلفوں میں نہیں رہنے دی۔ اسے بھی ہم نے بڑھی ہوئی عمر کا مسئلہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔مرکزی مسئلہ یہی ہے کہ ہم بہت جلدی بلکہ لڑنے سے قبل ہی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ زمانے نے کبھی چپکے سے ہماری ساری مزاحمت ، ساری بغاوت چھین لی ہے۔کبھی کبھار جو جی چاہتا تھا کہ ہم اپنی تحریروں سے کہیں آگ لگا دیں تو اب فقط ہماری تحریریں خود آگ لگنے کے قابل رہ گئی ہیں۔لیکن انسان یعنی ایک سیلف کریکٹنگ مشین ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ اپنا تجزیہ کر کے اپنا رویہ درست کریں اور کرتے رہیں۔ باقی ہم نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ اگر انسان کو شوق ہو تو شست باندھ کر سنجیدگی سے چاند کا نشانہ ضرور لینا چاہیے۔ قسمت کے لکھے پر راضی ہونے کے لیے اس کے بعد بڑا وقت پڑا ہے۔بڑی عمر میں لاکھ برائیاں سہی مگر ایک خوبی بہت بڑی ہے کہ انسان بہت سی چیزیں پرسپیکٹو میں دیکھنے لگتا ہے۔چھاجوں برستی بارش میں پھنسے ہوئے گھنٹوں میں جب ہم ان سیڈ ورڈز کے تصور پر غور کر رہے تھے تو ہمیں اپنے بچارے بلاگ کا خیال آیا۔ ویسے بھی جب کہ ہم آج کل مجھے تمھارے صابن کے بلبلوں سے حسد ہے گنگنایا کرتے ہیں تو اس کا حق تو پھر زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ ہر وقت جذباتی کچرا ساتھ لیے پھرنے سے بھی ہم بیزار ہیں کہ یہ وقت غیر متعلقہ اشیا کو کک مار کر دور پھینکنے کاہے ، ناسٹلجیے کا مریض بن کر رہنے کا نہیں۔
بالائے خط:  رات گئے شہر کے کیچڑ، ٹھنڈے پانی اور بے تحاشا ٹریفک میں چار گھنٹے سے اوپر تفریح کرنے سے  بارش کا سارا بھوت اتر گیا۔

Wednesday, January 21, 2015

The case of the missing data

It takes a day like this one to remind me how truly and hopelessly smitten I am with science, technology and the art of problem solving.
A day like this does not refer to the much needed and long-prayed for bout of drizzling. Its as pretty as ever and definitely much needed but its just that--a drizzle and not a rain.
Not the type of rain that your sincerely prefers: the one which lashes against the windows and makes a high amplitude, high frequency noise and is accompanied by bolts of thunder that brilliantly light the sky for a second and wind that whips trees away.
So you get it: the rain is good but too light.
Back to science and technology now.
To err is very much human as we all know and thus there is nothing particularly wrong with it. The problem begins for some people when others perceive that erring (and might I emphasise, again and again) is the entire essence of their humanity. In my defence I can only say that I always make new mistakes and thus they are always interesting. If there was a 'mistake' data base for the human specie, I would have been an above average contributor.
Now that I think of it, why isn't there one? The ones for keeping track of the bugs in a program work so nicely and are so essential that it is strange why the idea has not been given much consideration before.
People have thought about a collection of human wisdom before (mainly for showing computers how intelligent and superior we, the humans , are) but wisdom is something I personally am always suspicious of. It might be a thing that very-much-learned people have either in their genes or they acquire through decades of meditations and sort of exercises and killing their (bad) inner self and what not but I don't see how one can learn anything about other people by living alone since life is, after all, mostly interactions with other people, be they voluntary, involuntary or involuntary but seeming voluntary.
Also wisdom is defined so broadly that the poor thing is murdered in the process.
Mistakes, on the other hand, are very real and tangible. There is always a cause and effect pattern (at least for those willing to see it) and they can usually be avoided if one has knowledge of this pattern beforehand.
Wisdom might also differ from place to place, depending upon the local culture and traditions (more things are affected by these than we can ever imagine) and one man's wisdom might very easily be another's folly.
A cause and effect pattern, on the other hand, if it is established, gives objective knowledge to people without the bounds of time and space.
So as I was stating the reason of my staying in technology (apart, of course,from not getting any lift from any other quarters)
in spite of my being extremely unlikely to be able to afford a house and a nice car even after twenty years, even if I save every penny that I get (assumed for the sake of simplicity in calculation) or to visit out of the proverbial well (that I currently live in) even for a while are eureka moments like the one I had today.
The one that you get when you discover a mistake you made four months ago in your design. A mistake that caused a sizeable chunk of the problems in the last four months.
The lesson that I learnt on my own, and which had been mentioned by Murphi the good soul before: If you incorporate a secret button in your system, people can always be relied upon to discover that button all by themselves, press it and mess up your life.
Of course, if you instruct them to push the button, the chances of it being pushed decrease tremendously but this one was supposed to be secret. One can also say that it was secret since the designer had no memory of incorporating it (she does have her lapses now and then, though otherwise it is a too clear one).
What happened on the surface was that I designed a system to collect some unknown data which some people were supposed to operate and collect data through and deliver to me , using which I was supposed was diagnose whatever was wrong with the poor thing.
Now I think I am good at diagnosing problems with the world in general which is basically due to reading too much history and politics combined with a pay that does not meet one's self esteem. This in itself is a lethal combination ( does anyone recall Branson the chauffer? Such are the effects of being employed by someone with a library or having enough money to buy non-fiction stuff but not a Mercedes). 
Add philosophy and you get a deadly mixture.
So in the  manner typicalof  old ladies (that I have been at heart since birth) I am quite good actually at finding faults with life, the universe and everything. Not Douglas Adam though; him I like a lot.
But digital systems , as I have lamented before, are quite another matter and I'll reiterate that debugging one is like finding a needle in a haystack.
Anyways so there would often be a very precise chunk of data missing whenever I would examine the data dumped on my desk by other people.
To my credit I was quick to notice and highlight it but since it was my system, no one else could point the fault out.
So I in my usual fashioned blamed the current drawing capabilities of the faulty system, its power-on behaviour, some mysterious IC and scary spirits in the air.
The latter have been extremely useful for scaring younger siblings and absolving myself of all blame whenever an IC's suspicious behaviour is concerned. My too-trusting supervisor was ready to abandon the sampling system but I saved the day by 
1.Being pragmatic and 
2.Discovering the reset button that I had incorporated in the system 4 months ago and then forgotten ALL about and which NO ONE was supposed to press but which people managed to press more times than not.
What actually saved the day at the end was pragmatism. It told me that there was a problem, that the problem had been created by me and that I had the ability to solve the problem. 
Pragmatism should be taught in engineering instead of crap like integrated circuits which one can always look up online.
Now that I think of it, these three crucial steps are generally missing when people encounter what are called the real life problems. They usually pretend that the problem is invisible, inevitable and insolvable. It goes without saying that all three things are, most of the time, completely rubbish.  
Rubbisher still is conventional wisdom which gets in the way of pragmatic people and stops them from calling a spade a spade or rubbish, rubbish in this case.
My fear of failure has been discussed at this place before and there were things about which I was hoping to make a mistake..there was an ethernet link that was made to work at a high speed and then there was something called clock domain crossing involved which most people only pretend to understand and about which I have sought people's opinion multiple times just to discard it (the opinion, that is) and which has a nice theory and long explanations and which I still use to blame the noise on in another system that I designed.  
So the clock domain crossing was dealt with nicely( you just insert a FIFO if you can live with it) even when two of my supervisors said it wasn't and I said it was. But the reset button wasn't and that is so characteristic of me. I so dream of a day when I'll be able to work without the fear of making mistakes in true robot fashion.
Also I am not a fan of global reset in FPGA designs so naturally it wasn't a true global reset..it only reset some parts of the system while others it left alone which made the behaviour even more complicated.
Which led to a chunk of missing data in some files for a very precise time.
Although the problem due to which we had to collect the data in the first place has not been solved by a single bit but that is, again, so characteristic of me.
In the future I think I should just tell people that I am good at solving problems, omitting the 'the-ones-that-I-created-in-the-first-place' part.
But that, folks, is in itself no mean achievement.