Saturday, September 19, 2015

(اولیور ٹوئسٹ ہیز آسکڈ فار مور ( ایف پی جی اے


یا ، دو برس غلامی کے۔


شروع میں ہی اعلان مجبوری کرتے چلیں کہ ہمیں اپنے قلم کی حد سے بڑھی ہوئی نرگسیت کا اندازہ ہے اور ہم اس کی اصلاح کے متمنی بھی ہیں۔ دنیا میں پچاس ہزار کام کی چیزیں ہوں گی اور ان میں سے کچھ ہمیں متاثر بھی کرتی ہیں مثلا سابق یونانی وزیر خزانہ کی موٹر سائکل پر رخصتی اور دنیا میں لوگوں کا گھر سے بے گھر ہونے کا المیہ مگر ہمارے پاس ان پر خامہ فرسائی کرنے کے لیے نہ تو علم ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ انسانی المیے تو اپنی جگہ ایک ایک ناول کے متقاضی ہیں کہ انسانوں کو اپنی جڑیں بدست خود اکھاڑ کردربدر بھٹکنے پر مجبور کرنا بہت ہی بڑا ظلم ہے۔یہ ایک اور ظلم ہے کہ ان کے ٹھکانہ بنانے کو کوئی جگہ بھی نہ ہو۔ اور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ جڑیں اکثر پورے طور پر اکھڑتی بھی نہیں ہیں۔ ہم کہ اپنے ہی ماحول میں سارا وقت کسی آؤٹ کاسٹ کی طرح گزارتے ہیں، اسے کچھ کچھ سمجھ سکتے ہیں مگر اس پر ایک کہانی لکھنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتے۔


اگرچہ ہمارے کانوکیشن کی سالگرہ بھی قریب ہے اور ہماری اپنی بھی مگر ان دونوں مواقع کو ہم کوئی خاص درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ البتہ انھی تاریخوں میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا جس نے ہماری آنے والی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کیے، یعنی نوکری کا مل جانا۔ اب دو سال بعد ذرا جائزہ لینے کا سوچتے ہیں کہ پلٹ کر نگاہ ڈالیں تو ہمیں کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔ نوکریاں پچاس ہزار طرح کی ہوتی ہیں اور ہماری والی کا شمار بور ترین میں ہوتا ہے جس میں بار بار ہمارے دل کے ٹوٹنے کے سوا کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آتا۔


منطق کی رو سے دیکھا جائے تو شاید مسئلے کی جڑ ہمارے دل کی ٹوٹنے کی انفنٹ کیپیسیٹی ہے۔


خدا لگتی بات ہے کہ ہمیں گھر میں ہی سہی مگر بری طرح اوور رئیکٹ کرنے کی بیماری ہے اور ہم بعض اوقات لوگوں سے ایک دم بدگمان ہو جاتے ہیں مگر آنکھوں دیکھی حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی۔ ابھی حا ل میں ہی ہم نے اپنے برابر کے چھوکرے کو ایک نئے بچے کا انٹرویو لیتے ہوئے دیکھا تو پھر وہ آگ صبح تک نہ بجھی شام کی لگی ۔ اسے بیان کرنے کے لیے کوئی قادرالکلام شاعر توشاید کفایت کر جائے مگر ہم اس کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنانے کے قابل نہیں۔ ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ بارہا کا تجربہ ہے کہ جب ہم انٹرویو دینے کہیں پہنچتے ہیں جہاں انٹرویو لینے والے پہلے سے ہی ہمارے گھائل ہوتے ہیں تو وہاں بھی دو مربوط جملے بولنے میں ناکام ہو کر صفر نمبر لے کر لوٹ آتے ہیں۔ قصور اس میں بھی دنیا کا ہے۔ اب لوگ اگر ایف پی جی اے کی تعریف پوچھیں تو ہم لو آف مائی لائف اور بین آف مائی ایگزیسٹینس کے علاوہ کیا کہہ سکتے ہیں۔ اول الذکر تو وہ عرصے سے ہیں، اور موخر الذکر یوں کہ ان کے لیے اب ہم دنیا سے لڑنے والے ہیں جس کا ذکر آگے آئے گا۔


انڈسٹرئیل ایرئے کے ماحول نے ہماری غیر نثر کو تو جو کھایا ہے سو کھایا ہے، تخیل بھی بے حد پست کر کے رکھ دیا ہے۔ ہماری تمام تر فینٹسیز جو پہلے کبھی ستاروں سے آگے والے جہاں مسخر کرنے کے بارے میں ہوا کرتی تھیں، اب صرف ایک دن بند آنکھوں سمیت صبح سویرے فون پر استعفی دینے کے بارے میں رہ گئی ہیں۔


کڑوا سچ تو یہ ہے کہ ہم بزدلی کے مارے استعفی بھی نہیں دے سکتے اور حقیقت کے نزدیک ترین صرف یہی صورت رہ جاتی ہے کہ کسی سے بدتمیز ی کریں اور کھڑے کھڑے داغے جائیں یعنی فائر ہو جائیں۔ مزید کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم کسی سے غیر تحریری بدتمیزی کرنے کے بھی قابل نہیں۔


ایک صاحب کو میڈل دینا چاہتے ہیں جنھوں نے ایک دوست کو مشورہ دیا تھا کہ اس جگہ سے بھاگ جاؤ، یہاں لوگ تمھیں آگے نہیں جانے دیں گے۔ یہاں بھی سچ یہ ہے کہ اس میں کسی انسان کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہاں سسٹم ہی کچھ ایسا ہے۔


مسئلہ شاید یہ بھی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری توہین واقعی میں ہوئی ہوتی ہے یا یہ محض ہمارا وہم اور خالی دماغ ہے۔کاش ہم کبھی یہ پہچاننے کے لیے ایک کمپیوٹر پروگرام بنا سکیں۔


ایک مرتبہ محسوس ہوا کہ ہماری ساری نام نہاد ٹیم ایک نئی جگہ شفٹ ہو رہی ہے، ہمارے سوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ہم بھی کسی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اپنے تئیں اس نام نہاد ٹیم میں ہم ہر لحاظ سے درمیان میں آتے تھے مثلا بلحاظ عمر، تجربہ ، کام کرنے کا جذبہ ، قد، وزن ، رنگت وغیرہ وغیرہ لہذا یہ یکایک نارمل ڈسٹریبوشن کے آخری سرے پر دھکیلے جانا کچھ ہضم نہیں ہوا۔ خلاف عادت پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ہمارے مینیجر نے بہت ( یا شاید کافی ) سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے اور یہ نیچرل سی بات ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم ٹھنڈے پڑ گئے کیونکہ دراصل پریشانی اس بات کی تھی کہ فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے۔ خیر انھیں احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ انھوں نے ہم سے پوچھے بغیر خود ہی فرض کر لیا ہے کہ ہم یہاں بہت ہی پارٹی ماحول میں رہتے ہیں اور نئی جگہ پورا دن خاموش رہ کر بور ہوں گے ( حالانکہ ہم ویسے ہی کان آنکھیں بند کر کے اپنی دنیا میں رہتے تھے) تو انھوں نے دنیا کا منحوس ترین لفظ یعنی سوری بول کر اپنی گردن چھڑا لی۔


منحوس ترین یوں کہ ہم ایک ایسے بچے سے واقف ہیں جواپنا حق سمجھ کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہے اور پھر ایک دلربا مسکراہٹ مع سوری پھینک دیتا ہے۔ پھر اگر عمر کا گریڈئنٹ اتنا ہو جتنا ہمارے اور ہمارے مینیجر کے درمیان ہے تو شکایت کنندہ تو نظریں اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔


ایک ہفتے تک سڑا ہوا رہنے ( جس کی محاورے کے مطابق ان کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوئی) اور ایک دن کا کام پانچ دن میں کرنے کے بعد نتیجہ نکلا کہ ہماری پہلی وفاداری بہرحال اپنی کمپنی سے ہے ۔ اس کی روشنی میں ہم نے اپنا پیسو اگریسو رویہ ترک کیا اور انھیں ایک جملے کی مار مارنے کے بعد کہ سر آپ نے تو اپنی ٹیم سے ہمیں نکال ہی دیا ہے، اپنا دل صاف کر کے دوبارہ کام میں لگا لیا۔ خیر اس پر یہ بیچارے کہ بے حد شریف آدمی ہیں، ذرا گھبرا گئے اور چار مرتبہ ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ٹیم سے نکالنے والی کوئی بات نہیں ہے حالانکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم کبھی ٹیم کا حصہ تھے ہی نہیں۔


خیر اس کہانی کا تو یہ ہوا کہ بعد میں پتہ چلا کہ نئی جگہ میں ضرورت سے کہیں زیادہ نیا پینٹ ہے اور کہیں کم جگہ اور یہاں ہم بلاناغہ بہت سیریس قسم کی سٹیگ پارٹی کریش کیا کریں گے اور شام میں اٹھنے تک کریش کرتے رہیں گے تو تب سے ہم اس چکر میں ہیں کہ قبول ہونے کی صورت میں اپنی درخواست کیونکر واپس لیں۔ اگر لوگ پارٹی کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس میں ٹانگ اڑانے والے کون ہوتے ہیں؟


پھر ہمیں بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمارے برابر کے لونڈے تو اور لوگوں کے انٹرویو لیں اور ہماری شکل دیکھنا لوگوں کو ہزار بار کے پیہم اصرار پر بھی نصیب نہ ہو ۔ خیر شکل نہ دکھانے پر اعتراض نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں حال میں ہی علم ہوا ہے کہ لوگ ہمیں ایک دوسرے گروپ میں شفٹ کرنا چاہ رہے ہیں جس میں ہم نے شروع کے کچھ مہینے بھی روتے دھوتے گزارے تھے۔ اب اس وقت تو ایسا سوچنا بھی محال ہے جبکہ زمانے نے ہمیں مار ڈالا ہے اورہم سوچتے ہیں کہ وہ ولولے کہاں، وہ جوانی کدھر گئی۔ پروگرامنگ بڑا پیارا کام ہے مگر صرف گھر آ کر دل بہلانے کے لیے، پورا دن ایک ہی کوڈمیں باریک باریک کیڑے نکالنے اور لمبی لمبی رپورٹیں بنانے کا اب ہمیں نہ دماغ ہے اور نہ حوصلہ۔


اور اس خیال کے آتے ہی ہمارا میٹر گھوم گیا۔


پھر ہمیں یاد آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ۔ اب مبہم سی درخواست تو ہم نے دے دی ہے، اس دلیل کے ساتھ کہ سافٹوئیر میں کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے مگر نجانے کیوں اس کی حیثیت اولیور ٹوئسٹ کی التجا کی سی لگتی ہے۔


یہاں ہم یہ ماننے کو تیار ہیں کہ شاید مسئلہ کچھ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اب خیال آتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کی باگ ہمیشہ اوروں کے ہاتھ میں ہی تھمائے رکھی ہے اور یہ کہنے کو تو ہماری زندگی ہے مگر اسے ہمارے علاوہ اور بہت سے انجانے اور جانے لوگ گزار رہے ہیں۔ ہمیشہ، ہمیشہ ہماری طرف سے فیصلے دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں تو کبھی کبھی انسان بری طرح بیزار بھی ہو جاتا ہے۔


باقی ایک ازلی کمیونیکشن گیپ کو تو شاید کچھ عرصے میں پوری طرح قبول کر کے اپنی زندگی اسی کے گرد ری سٹرکچر کر لیں۔


سوچتے ہیں کہ استعفی تو شاید کبھی کہیں سے نہ دے سکیں ، لیکن اگر کسی انسان سے بدتمیزی کر لیں تو کام آسان ہو جائے گا۔


جملے جو ہم واقعتا ہر کوشش میں ناکامی کے بعد کسی کو لپیٹ کر مارنا چاہتے ہیں:


۔ اگر میں ایک دن چپ چاپ غائب ہو گئی تو آپ کو وجہ معلوم ہو گی۔


میں شروع میں کچھ دن تو پیسو اگریسو رہوں گی۔ پھر میری دلچسپی ختم ہو جائے گی۔


دیکھیں اگر میری کام میں دلچسپی نہ ہو تو میرا صبح سویرے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا۔


اگر کام بورنگ ہو تو میرے پاس کوئی وجہ نہیں رہ جاتی یہاں آنے کی۔


جس کام میں میرا د ل نہ ہو، وہ میں نہیں کر سکتی۔


اگر کوئی چاہے تو مفید ترین جملے کے لیے ووٹ دے سکتا ہے۔ ہماری اپنی کوشش ہو گی کہ کسی طرح گفتگو میں ان سب سے مد مقابل کو مستفید کیا جا سکے۔


ہم اچھے بھلے سٹوئک ہوا کرتے تھے مگر یہ حالات ٹھیک کرنے کے سبز باغ دکھا کر ہمارا دماغ خراب کرنے کی ساری ذمہ داری برٹرینڈ رسل پر جاتی ہے۔ اگر ہم اپنے پرانے نظریات ذہن میں رکھیں تو پہلے کی طرح خوش رہا کریں۔ شاید ہمیں اب مارکس اوریلئس پڑھنے کی ضرورت ہے۔


کبھی کبھی ہمیں ہنسی آتی ہے کہ ہم دنیا میں آگ لگانا چاہتے ہیں، اچھے وقتوں میں قلمی اور برے میں غیر قلمی ذرائع سے اور حالت یہ ہے کہ ہماری اپنی اماں کے نزدیک ہماری تحریریں خود آگ لگنے کے قابل ہیں۔


جب کبھی غصہ ٹھنڈا ہو تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اگر خدا نے چاہا تو بہت ساری شیشے کی چھتیں چھ انچ کی ہیل سے توڑا کریں گے۔


یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم یہاں سے بھاگ نکلیں مگر پھر ہمیں اپنے مقاصد پر شک ہو جاتا ہے کہ اس شہر کے کچھ دل توڑنے والوں کو چھوڑ کر ہم فقط اپنے آپ سے دور بھاگنا چاہ رہے ہیں اور صاحبو، اس میں تو آج تک کوئی کم ازکم اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔تنہائی کا ایک بنیادی اور لاعلاج احساس تو مریخ تک ہمارا پیچھا کرے گا جب ہم داخلے میں ناکامی کے بعد وہاں جانے کی کوشش کریں گے تو۔ اپنے ایگزیسٹینشئل اینگسٹ کو ہم دبا کر رکھتے ہیں مگر دماغ کے کچھ نیورونز میں اس کے درست اور انتہائی ویلڈ ہونے کا احساس انتہائی شدت کے ساتھ موجود ہے۔ ہمارا تجربہ تو یہ کہتا ہے کہ خالی پن کی اس کیفییت کو، جو کہیں اندر سے اٹھتی ہے، کسی چیز سے پر نہیں کیا جا سکتا، نہ ادب سے، نہ فلسفے سے، نہ سائنس سے، نہ جمالیات سے اور نہ ہی انسانی تعلقات سے۔ جب مجمعے میں جا بیٹھنے کے بعد بھی انسان کی حالت ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے، اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا والی ہو اور ویرانے ہر جگہ ساتھ جا پہنچتے ہوں تو کسی دیوار سے سر پھوڑنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔


ہمارے زمانے کا عجیب المیہ ہے کہ نہ تو کہیں کوئی زندان کی دیوار نظر آتی ہے کہ اس سے سر پھوڑا جا سکے، اسے توڑنے کی کوشش کی جائے یا اس میں ایک روزن وا ہونے کی آرزو اور نہ صحرا جس کی سر میں خاک ڈالنے کے بعد سیر کی جا سکے۔ بھٹکنے کو اپنی تمناؤں کے دشت لامکاں کے سوا کچھ بھی نہیں۔محو آئینہ داری بھی ہم خود کو ہی دیکھتے ہیں اور تصویر کی طرح دیوار سے چپکے کھڑے ہونے کے لیے بھی ہمیں ۔یو گیسڈ اٹ۔ اپنی محفل کے سوا کون سا مقام سوجھتا ہے۔ زلفیں تو سب سنوار رکھتے ہیں اور پریشان حالی صرف اور صرف خیالات کے لیے مخصوص ہے۔ نہ کہیں کوئی ناصح ہے کہ جنوں کو قید کرنے کی سعی لاحاصل کرے اور شاید جنوں بھی کہیں نہیں جو اصل مسئلہ ہے۔


پھر ہمیں خیال آتا ہے کہ شاید یہ تمام تر ہمارے اندر کیمکلز کے بیلینس کا مسئلہ ہے۔


لیکن اس اصول کی رو سے ہر تحریر کے ساتھ مصنف کے بلڈ ٹیسٹ کی رپورٹ منسلک ہونی چاہیے۔


وہ اشیا جن سے ہمیں اب کچھ امیدیں ہیں: روبوٹ، ورچوئل رئیلیٹی اور پیہم پارٹیاں۔ بس روبوٹ اس قدر سمجھدار نہ ہوں کہ ہمہ وقت ہمارے تھیراپسٹ کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے تنگ آ جائیں۔ سڑیل روبوٹ صرف دو ہی ٹھیک ہیں، ایک ہچ ہائکر گائیڈ والا مارون اور ایک ہم۔