Tuesday, March 31, 2015

قطرے پہ گہر ہونے تک


غالب   کا ذکر ٹائٹل میں ٹھیک لگتا ہے مگر ہماری داستان دراصل موم کے پتھر میں میٹا مارفاس ہونے کی کہانی ہے، اور اس کا اندازہ ہمیں اپنے پچھلے سال کے نوٹس کھنگالتے ہوئے ہوا۔

ہمارا زیادہ تر وقت ایک ایسی جگہ گزرتا ہے جہاں اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے کی طرح اپنے لطیفوں اور حالات حاضرہ پر کمینٹری پر خود ہی ہنسنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم اپنے برجستہ تبصرے روز کے روز لکھتے جاتے ہیں۔ اگر کبھی اس سے کچھ ملنے کا امکان ہو تو اپنے روزنامچے مرتب کر کے سال بہ سال چھپوایا کریں۔ اگرچہ اس میں بھی دو بنیادی مسائل ہیں، پہلا یہ کہ اشاعت کے بعد بھی اس کے کل قارئین اتنے ہی ہوں گے جتنے کہ اشاعت سے قبل، یعنی کہ ایک، یعنی کہ ہم۔ دوسرا یہ کہ ہم کہ زندگی، خوابوں اور گفتگو میں بہت لحاظ رکھنے کے قائل ہیں، اس میں اپنے پبلک پرسونا کے برخلاف بلا روک ٹوک لکھتے چلے جاتے ہیں لہذا ا قارئین کے وجود رکھنے  کی صورت میں گر اسے سنسر کر کے شائع کریں تو بچارا روزنامچہ نہیں بچے گا اور اگر بغیر کانٹ چھانٹ کے دنیا میں نکال دیں تو ہم نہیں بچیں گے۔

خیر خیال ہمیں یہ آیا کہ ہماری خود اعتمادی کا گراف ایک سال کے اندر اندر کس قدر ترقی کر گیا ہے۔ پہلے ہم دفتر میں سب سے نکمے اور بے کار انسان ہوا کرتے تھے اور ہمہ وقت یہ راگ بھی الاپتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ نوبت آئی کہ ہم اپنے سی ای او کے بعد سب سے اچھے انجینئر شمار ہونے لگے۔ یہاں دھیان رہے کہ یہ ساری کی ساری رینکنگ ہماری طرف سے تھی اور اس کا علم ہمارے اور ہمارے خدا کے علاوہ صرف ہماری اماں کو ہوا کرتا تھا۔اب ہمیں حسب معمول خود سے زیادہ سمجھدار کوئی دکھائی نہیں دیتا۔اس فقید المثال ترقی کا حل تو اب ہماری سمجھ میں فقط یہ آتاہے کہ یہاں سے بھاگ نکلیں ۔

اپنے خیالات روزانہ کی بنیاد پر مرتب کرنے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اپنے ماضی کا بخوبی تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔آج کل کہیں کہیں کھلے ہوئے پھول دیکھ کر ہم یاد کرتے ہیں کہ گزشتہ بہار میں ہم کس قدر دکھی بلکہ میلنکلی ہوا کرتے تھے۔ ہم لوگوں کی زندگی سے دس ہزار مرتبہ کک آؤٹ ہونے پر تیار ہیں بشرطیکہ ہمیں اس کی وجہ بتا دی جائے۔باقی انسانوں والے نخرے تو اپنی جگہ رہے کہ کم از کم  کک کھانے والے کو اتنی عزت تو دی جائے کہ فاعل ایک مرتبہ  اسے روبرو اس کی  باضابطہ اطلاع دے ، پھر بے شک اس میں مفعول کی کم صورتی کا ذکر ہو، ہم چنداں معترض نہ ہوں گے۔  علت اور معلول کے خوگروں کی    سمجھ میں جو بات   نہ آئے ، کہیں بڑی مضبوطی سے کھب جاتی ہے اور کھبی رہتی ہے۔ اگر کبھی تنگ آ کر صحرا کو نکلے تو لیلی لیلی کے روایتی نعرے کے بجائے ریزن ریزن گایا کریں گے۔ یوں بھی آج کل ہم اپنی مہینوں کی شبانہ روز محنت کے باوصف ایک تکنیکی مسئلے کی وجہ جاننے سے غیر تکنیکی لوگوں کے باعث محروم رہنے کے سبب کچھ زیادہ ہی زود رنج ہیں۔ آہ، یہ غیر تکنیکی، غیر منطقی لوگ۔۔


خیر کک آؤٹ ہونا بھی ایک مفید تجربہ ہوتا ہے جس سے انسان کو بہت سی باتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ہماری ایک دوست کہا کرتی تھیں کہ یہ دنیا داہنے ہاتھ والے مردوں کی ہے۔ ہم اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ یہ دنیا کچھ بھی ہو، کم از کم حساس اور سوچنے والی خواتین کی ہرگز نہیں ہے یعنی ایسی خواتین جن کا ایمپلی فائی بھی زیادہ کام کرتا ہو اور پروسیسر بھی۔ ایسے ہارڈ وئیر کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ انسان معمولی معمولی باتوں پر ضرورت سے کہیں زیادہ غور کرتا رہتا ہے اور پھر شور بڑھتا چلا جاتا ہے، بڑھتا چلا جاتا ہے، بڑھتا چلا جاتا ہے۔

شور کی اس یلغار سے گھبرا کر ہم نے اب اپنے سینسر بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔رہا پروسیسر تو اسے اب لوگوں کے بجائے کام کے کام میں لگایا کریں گے۔زود رنج لوگوں کی دنیا میں کوئی زیادہ اچھی جگہ نہیں ہوتی اور ہر وقت کا مسخرا پن اور حماقت بہت بری طرح گلے پڑتی ہیں۔

سوشل آکورڈنیس اور حد سے بڑھی ہوئی حساسیت کے خول کو خدا خدا کر کے اتار پھینکنے کا فیصلہ تو ہم نے کر لیا ہے لیکن ہے یہ مشکل کام۔ خیر ۔ دیکھیے اب کے غم سے جی مرا۔ ایک ہی خول میں آخر کتنا عرصہ بند رہا جا سکتا ہے؟

ایک اور نتیجہ ہم نے یہ بھی اخذ کیا ہے کہ انسان کی زندگی سانس کی آمد و رفت سے بڑھ کر جیتے جاگتے خوابوں سے عبارت ہے۔ چھوٹے بڑے خواب انسان کے اندر دوڑتے ہیں اور اگر انھیں مار دیا جائے تو زندگی، زندگی کہلانے کے کوئی خاص قابل نہیں رہ جاتی۔ خواب چاہے مریخ کے ہی ہوں لیکن اہمیت رکھتے ہیں اس لیے کہ ان کو پورا کرنے کے لیے انسان جدوجہد کرتا ہے، منصوبے بناتا ہے، غور و فکر کرتا ہے اور کبھی کبھار کی خوشی کے لیے بہت سے غم برداشت کرتا ہے۔ اگر خواب نہ ہوں تو ان کی جگہ صرف ایک خلا یعنی ڈپریشن رہ جاتا ہے جسے مین از کنڈیمڈ ٹو بی فری جیسے درست مگر غیر متعلقہ سوالوں سے پر نہیں کیا جا سکتا صرف مزید گھمبیر کیا جا سکتا ہے۔ برگساں سے اختلافات اپنی جگہ مگر جوشش حیات سے بھرپور اندھا دھند منزلیں مارتا قافلہ، حیات انسانی کی بہت اچھی     تمثیل ہے۔

آج کل ہم اپنے آپ کو کچھ اس نوع کی نصیحتیں کرتے ہوئے پائے جاتے  ہیں۔ تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی ۔ اٹھو، تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو۔

خدا جانے اردو شاعری کے ماروں کو اپنے تمام مسائل کا حل گھوم پھر کر اردو شاعری میں ہی کیوں ملتا ہے۔

No comments:

Post a Comment