Friday, January 11, 2013

یہ پیارے میر صاحب کی زباں ہے


آخر کار ہم نے بھی انگلی کٹوانے کا فیصلہ کر لیا۔
انگلی اس باعث کہ نام لکھوانے کے لیے اتنا ایثار تو لازم ہے، کچھ یہ بھی کہ ہماری اردو کے ایک حد سے زیادہ متحمل نہ ہم خود ہو سکتے ہیں اور نہ ہمارے مبینہ قارئین۔(اگر وہ بالفرض وجود رکھتے ہیں تو)۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اردو ہماری زبان پر تو چڑھی ہوئی ہے مگر ہمارے قلم پر نہیں اور یہ بالقصد ہے کہ ہم اردو کو اس موذی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، مبادا موجودہ زمانے کے کوئی میر صاحب ادھر آ نکلیں اور اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے ڈیسکٹاپ کی تار یا لیپ ٹاپ کی بیٹری کھینچ کر نکال دیں۔
ویسے بھی ہمارے بلاگ کی زندگی کا بنیادی مقصد اپنے تعلیمی ادارے کی زندگی کو بے خوف و خطر برا بھلا کہنا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کہنے میں بھلے کا فقدان اور برے کی بہتات ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہماری یونیورسٹی سراپا شر ہے۔ وہاں سے ہم نے جس قدر سیکھا ہے، اور کہیں سے نہیں سیکھا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم پیدائشی نقاد واقع ہوئے ہیں مگر بول اٹھنے سے خوف کھاتے ہیں۔جب لوگ اظہارِ تاسف کرتے ہیں کہ ہماری موجودگی ان کی بے مثال حسِ مزاح کے آڑے آ جاتی ہے تو ہمارا جی تو بہت چاہتا ہے کہ کہہ ڈالیں : 'جنابِ عالی! آپ اپنی ظرافت کے آگے بند نہ باندھیے، ہم پانچ منٹ کو تصور کر لیں گے کہ ہم کسی سڑک کے کنارے کھڑے ہیں' مگر ہماری زبان بند رہتی ہے۔ پس جب ہم لوگوں کے طعن و تشنیع، ریشہ دوانیوں، بے مروتی اور قطعی پوائنٹ لیس جوکس کا، جن کا نشانہ ہماری مسکین ذات ہوتی ہے، برملا اور دوٹوک جواب نہیں دے سکتے، جو اپنے تئیں ہمیں بہت اچھی طرح دینا آتا ہے، تو ہم انھیں اپنے دل اور بلاگ میں سخت سست سنا کر اپنا اعتماد بحال کر لیتے ہیں۔ اردو میں لوگوں کو برا کہنا ذرا معیوب معلوم ہوتا ہے۔
پھر یہ بھی کہ اردو ادب کا ہم اردو کتب کی گراں قیمتی کے باعث دور دور سے ہی ادب کرتے ہیں۔ اوسطاََ اردو کی ایک کتاب کی قیمت میں تین انگریزی کی کتب آ سکتی ہیں۔
اردو کے خطرے میں ہونے کا نعرہ ہم  ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں۔ تواتر سے ذکر کیا جاتا ہے کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا مگر یہ سرکاری زبان نہ بن سکی۔ اردو کی زبوں حالی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ انگریزی کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر اس پر ہماری ذہنی غلامی اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کے طعنے کا تڑکا بھی لازمی ہے۔
احساسِ کمتری کے موضوع پر اگر بحث کی جائے تو بہت ہی دور نکل جائے گی، لہذا اس معاملے پر ہم فی الحال خاموش رہتے ہیں۔
بات جو ہماری کم کم استعمال ہونے والی عقل میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ زبان صرف زبان ہوتی ہے، تبادلہء خیال کے لیے ایک آلہ۔ کسی بھی آلے کی طرح اس کا مثبت استعمال بھی ممکن ہے اور منفی بھی۔ کسی غیر ملک اور علاقے کی زبان سیکھنے سے انسان کو وہاں کی تہذیب و تمدن ، رسوم و رواج، طرزِ معاشرت اور اندازِ فکر کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا نادر موقع ملتا ہے، جس کا نعم البدل ڈھونڈنا ایک عام انسان کے لیے قریباََ قریباََ ناممکن ہے۔ ہم میں سے کتنے افراد دور دراز مقامات کا سفر کرنے، قیام کرنے اور مقامی لوگوں میں گھل مل کر ان کے طرزِ زندگی کو جاننے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ تو جس شے کو انگریزی زبان سمجھ کر مطعون کیا جاتا ہے وہ دراصل انگریزی کلچر ہے۔ اور اگر ہم من حیث القوم اپنا کلچر تبدیل کر رہے ہیں تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہمارے کلچر میں کوئی مسئلہ ہے یا ہم میں۔
ہمیں جذباتی ہونے یا انگلیاں اٹھانے کے بجائے سنجیدگی سے مسئلہ ڈھونڈنے اور اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ اگر اردو ہمیں پسند ہے تو لازمی نہیں کہ ہم اسے دفتری زبان کا درجہ دلوانے پر سارا زور صرف کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا ماحول پروان چڑھایا جائے جہاں ہر شخص اپنی مرضی کی زبان بلا کسی احساسِ کمتری یا برتری کے بول سکے اور تعصب سے بالاتر ہو کر دوسروں کو بولتے ہوئے سن سکے، چاہے وہ زبان اردو ہو یا عبرانی۔
اردو کی ترویج اور اشاعت کا آج کے زمانے میں یہی طریقہ ہے کہ عوام کو اچھی اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی طرف راغب کیا جائے۔
البتہ ایک معاملہ جس میں ہم تعصب برتنے پر مجبور ہیں ، وہ رومن اردو کا ہے۔ رومن اردو پڑھنے کو ہم کارِ گراں اور لکھنے کو کارِ عذاب سمجھتے ہیں۔ مگر گزشتہ عرصے میں اردو کے رسم الخط کی مناسب سپورٹ نہ ہونے کے باعث اس نے عوام و خواص میں اپنی جڑیں تشویشناک حد تک گہری کر لی ہیں۔ اب کچھ عرصے سے صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے، اردو کے کچھ ایسے شیدائیوں کے باعث جو ہمارے برعکس باتیں بنانے اور تقاریر جھاڑنے کے بجائے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
بحث ایک طرف مگر سیدھی سی بات ہے کہ اردو ہماری اپنی زبان ہے۔ بے شک ہم نے اسے سی پلس پلس اور ویری لاگ کے ساتھ باقاعدہ طور پر اپنی پسندیدہ زبانوں کی فہرست میں نہیں رکھا ہوا مگر اس کے متعلق ہمارے احساسات کچھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ اپنی اماں کے متعلق۔ ہر چند کہ انھیں ہماری بات سننے کی عادت نہیں مگر جس حوصلے سے وہ ہمیں برداشت کرتی ہیں وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ہم اردو سے بھی ویسی ہی وسیع القلبی کے متمنی ہیں ، جبھی تو اپنا قلم اور کی بورڈ اس پر تیز کر رہے ہیں۔

9 comments:

  1. محترمہ کُروی مربع صاحبہ،

    مجھ ناچیز کی رائے میں اردو کو اپنے قلم کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ کر آپ اردو ہی پر ظلم کر رہی ہیں۔ واللہ، آپ کے انگلی کٹوانے کا نہایت لطف آیا ہے، وقتاً فوقتاً اس عمل کو (محاورتاً) دہراتی رہیے گا۔

    جہاں تک اردو زبان کو رواج دینے اور رومن اردو سے تعصب برتنے کا تعلق ہے، تو میں آپ سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ اس بات کی بھی تائید کروں گا کہ اردو کی حمایت کے لیے کسی دوسری (خصوصاً انگریزی) زبان کی مخالفت چنداں ضروری نہیں۔ کاش کہ یہ بات اردو وکیپیڈیا کے مصنفین بھی سمجھ سکیں، کیونکہ وہاں لکھے گئے مضامین پڑھ کر کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ، آپ کے بر عکس، اردو ان کو اپنی اماں کی بجائے اپنی عظیم پڑ نانی لگتی ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہم اور اردو پر ظلم؟ یہ تاب ، یہ مجال، یہ طاقت نہیں ہمیں۔
      اردو وکیپیڈیا غور سے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ابھی تک۔
      پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ، شکر ہے کہ آپ نے قوسین میں محاورتاََ لکھ دیا۔

      Delete
  2. About Roman Urdu thing you mentioned: No comments :P
    I feel sad mainly about one thing. Urdu language has stopped developing. You see there are new terminologies coming in society and we don't have any Urdu translation available. I can give you hundreds of examples. I have also observed that this is not the case with Hindi. They keep on inventing new words. We have no Urdu equivalent for laptop, battery, computer, engineering and so on.. Not even for cigarette :p It is sad...

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی بالکل، یہ اصلاحات کا مسئلہ ایک باقاعدہ مسئلہ ہے۔ اور اردو کے ترقی نہ کرنے کی وجہ نہایت سیدھی سادی ہے ، کہ خود اردو والوں (یعنی کہ ہم ) نے اس کو بے کار سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔

      Delete
  3. Well said! It indeed is a sad reality that shouldn't be ignored...

    Its not just the language and literature that we have to preserve and promote; its our culture, heritage, history and values all that are in a way a part of it as you pointed out...!

    Its important to make means, especially for the younger generation, to develop a love for their own language..light the spark and it will grow!

    With the advent of technology, most of reading and writing takes place on blogs, websites, ebooks etc and thus it is the need of time to promote Urdu reading and writing on these platforms which, needless to say, is badly lacking...(the reason I have to type this comment in English :p)

    ReplyDelete
    Replies
    1. بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ ، صحیح بات ہے کہ انٹرنیٹ پر ہی آج کل سب سے زیادہ وقت گزارا جاتا ہے۔

      Delete
  4. بہت خوب جی ،
    آغاز سے ہی قاری کو گرفت میں لینے کا ہنر خوب واضح کیا ہے آپ نے اس تحریر میں۔ اردو کے متعلق بڑی جاندار تحریر لکھی ہے اور میری رائے میں ایسی تحاریر کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے خیالات اور آراء کو منظر عام پر لایا جائے اور دوسرے لوگوں کو بھی اسے پڑھ کر زبان کی اہمیت اور اس سے محبت کا اندازہ ہو سکے۔ آخر میں مجھ جیسے کچھ لوگ اس پر کچھ تبصرہ کرکے ہی انگلی کی نوک ہی زخمی کر لیا کریں۔ :)

    ReplyDelete
  5. تشریف آوری کا شکریہ، اور اسے جاندار تحریر قرار دینے کا بھی۔

    ReplyDelete