آخر کار ہم نے بھی انگلی کٹوانے کا فیصلہ کر لیا۔
انگلی اس باعث کہ نام لکھوانے کے لیے اتنا ایثار تو لازم ہے، کچھ یہ بھی کہ ہماری اردو کے ایک حد سے زیادہ متحمل نہ ہم خود ہو سکتے ہیں اور نہ ہمارے مبینہ قارئین۔(اگر وہ بالفرض وجود رکھتے ہیں تو)۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اردو ہماری زبان پر تو چڑھی ہوئی ہے مگر ہمارے قلم پر نہیں اور یہ بالقصد ہے کہ ہم اردو کو اس موذی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، مبادا موجودہ زمانے کے کوئی میر صاحب ادھر آ نکلیں اور اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے ڈیسکٹاپ کی تار یا لیپ ٹاپ کی بیٹری کھینچ کر نکال دیں۔
ویسے بھی ہمارے بلاگ کی زندگی کا بنیادی مقصد اپنے تعلیمی ادارے کی زندگی کو بے خوف و خطر برا بھلا کہنا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کہنے میں بھلے کا فقدان اور برے کی بہتات ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہماری یونیورسٹی سراپا شر ہے۔ وہاں سے ہم نے جس قدر سیکھا ہے، اور کہیں سے نہیں سیکھا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم پیدائشی نقاد واقع ہوئے ہیں مگر بول اٹھنے سے خوف کھاتے ہیں۔جب لوگ اظہارِ تاسف کرتے ہیں کہ ہماری موجودگی ان کی بے مثال حسِ مزاح کے آڑے آ جاتی ہے تو ہمارا جی تو بہت چاہتا ہے کہ کہہ ڈالیں : 'جنابِ عالی! آپ اپنی ظرافت کے آگے بند نہ باندھیے، ہم پانچ منٹ کو تصور کر لیں گے کہ ہم کسی سڑک کے کنارے کھڑے ہیں' مگر ہماری زبان بند رہتی ہے۔ پس جب ہم لوگوں کے طعن و تشنیع، ریشہ دوانیوں، بے مروتی اور قطعی پوائنٹ لیس جوکس کا، جن کا نشانہ ہماری مسکین ذات ہوتی ہے، برملا اور دوٹوک جواب نہیں دے سکتے، جو اپنے تئیں ہمیں بہت اچھی طرح دینا آتا ہے، تو ہم انھیں اپنے دل اور بلاگ میں سخت سست سنا کر اپنا اعتماد بحال کر لیتے ہیں۔ اردو میں لوگوں کو برا کہنا ذرا معیوب معلوم ہوتا ہے۔
پھر یہ بھی کہ اردو ادب کا ہم اردو کتب کی گراں قیمتی کے باعث دور دور سے ہی ادب کرتے ہیں۔ اوسطاََ اردو کی ایک کتاب کی قیمت میں تین انگریزی کی کتب آ سکتی ہیں۔
اردو کے خطرے میں ہونے کا نعرہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں۔ تواتر سے ذکر کیا جاتا ہے کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا مگر یہ سرکاری زبان نہ بن سکی۔ اردو کی زبوں حالی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ انگریزی کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر اس پر ہماری ذہنی غلامی اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کے طعنے کا تڑکا بھی لازمی ہے۔
احساسِ کمتری کے موضوع پر اگر بحث کی جائے تو بہت ہی دور نکل جائے گی، لہذا اس معاملے پر ہم فی الحال خاموش رہتے ہیں۔
بات جو ہماری کم کم استعمال ہونے والی عقل میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ زبان صرف زبان ہوتی ہے، تبادلہء خیال کے لیے ایک آلہ۔ کسی بھی آلے کی طرح اس کا مثبت استعمال بھی ممکن ہے اور منفی بھی۔ کسی غیر ملک اور علاقے کی زبان سیکھنے سے انسان کو وہاں کی تہذیب و تمدن ، رسوم و رواج، طرزِ معاشرت اور اندازِ فکر کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا نادر موقع ملتا ہے، جس کا نعم البدل ڈھونڈنا ایک عام انسان کے لیے قریباََ قریباََ ناممکن ہے۔ ہم میں سے کتنے افراد دور دراز مقامات کا سفر کرنے، قیام کرنے اور مقامی لوگوں میں گھل مل کر ان کے طرزِ زندگی کو جاننے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ تو جس شے کو انگریزی زبان سمجھ کر مطعون کیا جاتا ہے وہ دراصل انگریزی کلچر ہے۔ اور اگر ہم من حیث القوم اپنا کلچر تبدیل کر رہے ہیں تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہمارے کلچر میں کوئی مسئلہ ہے یا ہم میں۔
ہمیں جذباتی ہونے یا انگلیاں اٹھانے کے بجائے سنجیدگی سے مسئلہ ڈھونڈنے اور اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ اگر اردو ہمیں پسند ہے تو لازمی نہیں کہ ہم اسے دفتری زبان کا درجہ دلوانے پر سارا زور صرف کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا ماحول پروان چڑھایا جائے جہاں ہر شخص اپنی مرضی کی زبان بلا کسی احساسِ کمتری یا برتری کے بول سکے اور تعصب سے بالاتر ہو کر دوسروں کو بولتے ہوئے سن سکے، چاہے وہ زبان اردو ہو یا عبرانی۔
اردو کی ترویج اور اشاعت کا آج کے زمانے میں یہی طریقہ ہے کہ عوام کو اچھی اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی طرف راغب کیا جائے۔
البتہ ایک معاملہ جس میں ہم تعصب برتنے پر مجبور ہیں ، وہ رومن اردو کا ہے۔ رومن اردو پڑھنے کو ہم کارِ گراں اور لکھنے کو کارِ عذاب سمجھتے ہیں۔ مگر گزشتہ عرصے میں اردو کے رسم الخط کی مناسب سپورٹ نہ ہونے کے باعث اس نے عوام و خواص میں اپنی جڑیں تشویشناک حد تک گہری کر لی ہیں۔ اب کچھ عرصے سے صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے، اردو کے کچھ ایسے شیدائیوں کے باعث جو ہمارے برعکس باتیں بنانے اور تقاریر جھاڑنے کے بجائے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
بحث ایک طرف مگر سیدھی سی بات ہے کہ اردو ہماری اپنی زبان ہے۔ بے شک ہم نے اسے سی پلس پلس اور ویری لاگ کے ساتھ باقاعدہ طور پر اپنی پسندیدہ زبانوں کی فہرست میں نہیں رکھا ہوا مگر اس کے متعلق ہمارے احساسات کچھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ اپنی اماں کے متعلق۔ ہر چند کہ انھیں ہماری بات سننے کی عادت نہیں مگر جس حوصلے سے وہ ہمیں برداشت کرتی ہیں وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ہم اردو سے بھی ویسی ہی وسیع القلبی کے متمنی ہیں ، جبھی تو اپنا قلم اور کی بورڈ اس پر تیز کر رہے ہیں۔