Friday, October 7, 2016

ہے دوڑتا اشہب زمانہ

چیزیں بدلتی رہتی ہیں اور اس کے باوجود تبدیل نہیں ہوتیں۔ یہ اوکسیمورن یا مجموعہ اضداد تو ہے ہی اقبال اور ہماری طرح مگر اس سے بڑھ کر المیہ ہے۔کم از کم ہمیں تو یہی لگتا ہے۔ لیکن خیر، ارتقا شاید اسی کا نام ہے اور ممکن ہے کہ ایک دن کبھی ہم صحیح معنوں میں تبدیل ہو جائیں۔
تبدیل تو ہم ہو گئے ہیں اور بہت سے معاملات میں اور اس قدر کہ اب  محاورتا نہیں بلکہ حقیقتا  آئینے میں خود کو دیکھتے ہیں تو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ ہم کہ تین وقت اماں کے ہاتھ کا خوب سارا کھانا کھایا کرتے تھے، اب دن میں ایک مرتبہ کچھ پکاتے کھاتے ہیں اور وہ بھی ناغے کے ساتھ۔دیگر امور زندگی کی طرح ہم کھانا پکانے میں بھی کچھ اینٹی ٹیلنٹ رکھتے ہیں یعنی پکاتے ہیں اور انتہائی بکواس۔ ایسے میں وزن میں دس کے ملٹی پل کا فرق پڑنا ایک قدرتی امر ہے۔یوں بھی خود کھانا  پکانے میں ہماری انرجی خرچ زیادہ ہو  
جاتی ہے تو کھانے کا خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ہمیں کھانا پکانے کے لیے کسی انسان یا روبوٹ کی ضرورت ہے مگر ظاہر ہے کہ ہم ہر دو مخلوق افورڈ کرنے سے قاصر ہیں۔
ایک فرق یہ بھی پڑا ہے کہ پہلے لوگ ہمیں پانچ چھ سال کی پکی دوستی کے بعد کک آوٹ کرتے تھے تو اب امریکہ کی سبک رو زندگی میں یہ دورانیہ سمٹ کے چار ہفتے پر محیط ہو گیا ہے۔ خیر ہم بھی اس مرتبہ شاید ڈھائی گھنٹے میں ہی ریکور کر گئے، تین سال  کے مقابلے میں۔ اگر ہمارے ارتقا کا ڈیری ویٹیو زیادہ ہو تو شاید ہم اس پتھردل دنیا میں سروائیو کر پائیں جہاں لوگ دل میں زہر لیے پھرتے ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ ہم کہ فراز سے بھی زیادہ سادہ دل واقع ہوئے ہیں ، ہر ہاتھ بڑھانے والے کو دوست سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ تلخ حقیقت اب ہم پر واضح ہوئی ہے کہ اگر ہماری کسی سے ہود بھائی سے لے کر بھٹوز تک اور غالب سے لے کر کارل مارکس تک  سیر حاصل گفتگو ہو تو اس کا مطلب ہرگز، ہرگز اور ہرگز یہ نہیں کہ اگلا ہمارا دوست ہے یا خیر خواہ ہے یا اچھا انسان ہے۔ پھر اگر کوئی آج کے دن کے لیے  دوست بن  ہی گیا ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کل بھی دوست رہے گا۔ ابھی آخری کیس میں تو شاید فریق ثانی نے ایک ایک مہینے کا کوٹہ رکھنے کی عادت اپنائی ہوئی ہو۔ ویسے  یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اپنے ازلی غبی پن کے باعث کک آوٹ کر دیئے گئے ہوں جسے پہچاننے والے پہچان جاتے ہیں۔
ہاں ہمارے ارتقا کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ سابقہ کیس کے برعکس اس مرتبہ ہم نے آفنڈنگ پارٹی کے لیے اپنے دل سے نرم تو کیا، سخت گوشے بھی ختم کر دیے ایک دو دن ایٹ رینڈم گالیاں دینے کے بعد۔ عمر بڑھنے سے ہم پر یہ راز کھلا ہے کہ روایتی دانائی کے برعکس ہم مورٹلز  کے دل اور زندگی میں جگہ بہت کم ہوتی ہے لہذا ان میں فقط ان لوگوں کو رکھنا چاہیے جو اس قابل ہوں۔ داغ کے تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی میں بڑی تلخ سچائی پنہاں ہے کہ انسان انتہائی ریپلیس ایبل ہوا کرتے ہیں۔   اب ایسے میں کوئی ہارورڈ میٹیریل ہے تو ہوا کرے، ہمارے پاس جگہ نہیں ہے۔ ہارورڈ والے یوں بھی نمبر اور سفارشی خطوط دیکھ کر رکھ لیتے ہیں، انسان کا کردار تھوڑا ہی دیکھتے ہیں ٹھوک بجا کر۔ ہم ہارورڈ نہیں جا سکتے تو کیا ہوا، ہمیں تو ایک درخت کا سایہ بہت ہے۔ لیکن دنیا داری کے مارے ہوئے لوگ ایسے بے نیاز تھوڑا ہی ہو سکتے ہیں۔
دنیا کی پروا تو ہمارے پرانے جوتے بھی نہیں کرتے اور اس سپرٹ کے لیے ریاست ہائے متحدہ سے بہتر کون سی جگہ ہو سکتی ہے۔ یہاں ہم  انتہائی رنگین  مگر شکن  الود ملبوسات میں پھرا کرتے ہیں، کوئی کچھ کہہ کر تو دکھائے ہمیں۔ ہاں نوکری مانگنے کے لیے شاید ذرا تمیز سے جانا پڑے۔ اور ہاں بھئی، دنیا کی اگنور لسٹ پر ہم ہنوز ہیں لیکن اب اس بارے رونا دھونا نہیں مچاتے۔ رونا دھونا تو اب ہم کسی بارے میں بھی نہیں مچاتے کہ اماں کا گھٹنا میسر نہیں اور فون پر فقط جی جی اماں میں خوش ہوں کی تسلیاں دی جا سکتی ہیں۔  تھوڑا شوق ہو گیا ہے ہمیں دنیا سے لڑنے کا، اب خدا جانے کیا بنے نبمر ایک ہمارا اور نمبر دو، دنیا کا۔ مفت کا کھانا کھانے کی بھی ہمیں عادت پڑ گئی ہے کہ یونیورسٹی میں ہر وقت سیمینار اور کانفرنسیں چلتی رہتی ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود پرچے ہمارے ہنوز بےکار بلکہ انتہائی بےکار ہوتے ہیں۔ ہوا کریں۔ مائی شو ڈزنٹ کئیر۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں پرچوں اور سابقہ دوستوں کے علاوہ نیز یہ کہ ہے دوڑتا اشہب زمانہ اس قدر تیزی سے کہ رات کو سوتے  میں کبھی آنکھ کھل جائے تو ہم حساب کتاب لگاتے ہیں اور  بے طرح ڈر جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں ایسے خیالات ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ٹالے جا سکتے ہیں لیکن رات میں بہت سے شعوری اور غیر شعوری پردے اٹھ جاتے ہیں ذہن سے۔

Wednesday, September 28, 2016

ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم اپنے اندر کی ویرانی ساتھ لیے پھرتے ہیں مگر اس پر ہم فی الحال غور کرنے کو تیار نہیں۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ براعظم بدلنا آسان ہےاور خود کو بدلنا مشکل۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہمیں سنجیدگی سے سارتر کی تبلیغ کی گئی یعنی کہ ایگزسٹنس پریسیڈس بینگ لیکن ہم کہ ازل کے شکست خوردہ ہیں ، اس پر ایمان لانے  کو تیار نہیں۔ سارتر کی سب سے پیاری بات تو ہمیں وہی لگتی ہے یعنی کہ جہنم سے مراد ہے، غیروں کے ساتھ ناشتہ۔ویسے سچ یہ ہے کہ ناشتا تو کیا، اب ہم لنچ ڈنر سب اکیلے ہی کرتے ہیں اور جب ایک مرتبہ ہمیں ناشتے پر کمپنی میسر ہوئی تو اس سے ہم کافی زیادہ لطف اندوز ہوئے۔  شاید انسان تھوڑا بہت تبدیل ہو ہی جاتا ہے کبھی کبھار لیکن ہمارے تو خارجی عوامل تبدیل بلکہ یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔
رہے ہم تو خدا جانے کس سے وہ اپنی خو نہ چھوڑیں  گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں کی شرط باندھ کر اس دنیا میں آئے ہیں کہ کہیں تبدیل ہو کر نہیں دیتے۔ ہمارے اندرونی مسائل آج بھی وہی ہیں کہ جو تھے۔ ہاں اپنی عمر بلکہ معمر العمری کا لحاظ کر کے ہم نے اماں کو ستانا چھوڑ دیا ہے اور صبح شام انھیں فون پر میں خوش ہوں کی تسبیح سنایا کرتے ہیں۔ رونا دھونا کوئی ایسا ناگزیر عمل نہیں  جس کے بغیر زندگی نہ گزر سکے اور دل کی بھڑاس نکالنے کو بلاگ کیا کم ہے۔
خیر زندگی تو کس شے کے بغیر نہیں گزرتی۔ ہم تو خیر روبوٹ واقع ہوئے ہیں لیکن سمجھوتا کرنا انسان کے خمیر میں شامل ہے، چاہے رو دھو کر کرے یا خاموشی سے۔ہمیں خاموشی پسند ہے۔
بہرحال آج کی آہ و زاری کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہمیں ابھی بھی لوگ لفٹ نہیں کراتے اور اگر کرائیں بھی تو مستقل نہیں کراتے یہاں تک کہ ہمارے پیغامات کی لمبی قطار کے جواب میں ایک آدھ لفظ موصول ہوتا ہے اور ہم خود داری کے مارے پوچھتے بھی نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔یہاں متعلقہ بات یہ بھی ہے کہ اگر کوئی قسمت کا مارا لفٹ کرا ہی دے تو ہم ایک سو اسی کے زاویے پر مڑ کر سرپٹ بھاگ نکلتے ہیں اور یہ نصف صدی کا قصہ ہے،
دو چار برس کی بات نہیں۔ چلیے ربع صدی سہی مگر یہ ذکر ہم ابھی چھیڑنا نہیں چاہتے۔
سوال یہ ہے کہ ہماری انسانوں سے دوستی کیوں نہیں ہوتی چاہے ہم دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں۔
برف ہماری طرف ابھی پڑنا شروع نہیں ہوئی لیکن ہمیں اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ ہم تو اگست میں بھی فروزن تھے سو دسمبر میں بھی رہیں گے۔
اور پھر ہم کہتے ہیں کہ انسانی تعلقات ہماری سمجھ میں نہیں آتے۔ ایک تازہ سابقہ دوست کے الفاظ میں، ویری انٹرسٹنگ۔


Monday, July 25, 2016

قصہ ایک ٹریٹ کا

گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جب بقول شخصے  کتے والی ہونے کو ہو تو ہم اپنے آپ کو انسان سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہم لاکھ انجینئر سہی مگر اصل میں ایک خاتون اور صرف ایک خاتون ہیں۔
خدا گواہ ہے کہ اپنے حالیہ دفتر میں ، جو اس ذات باری کے فضل سے عنقریب ہی ہمارا سابقہ دفتر ہونے کو ہے، آ ٹپکنے سے پہلے ایک تو کیا، نصف خاتون بھی نہیں ہوتے تھے۔ گھر میں بے ترتیبی سے اپنا سامان پھیلا کر رکھنے سے لے کر سنہرے رنگ کو ہرا اور ہرے کو نیلا بتانے سے لے کر تمام مقامات آہ و فغاں پر ہماری تواضع اس قسم کے جملوں سے کی جاتی تھی جس میں ہماری صنف پر شک کا اظہار ہوتا تھا مثلا
کہیں سے پتہ نہیں چلتا کہ تم لڑکی ہو ( انچ انچ کے ناخن اور کیوں رکھے ہیں بھئی ہم نے)
لڑکیوں والی کوئی خوبی ہے تم میں
آج تک میں نے اتنی نکمی لڑکی نہیں دیکھی
فلاں کے فلاں کی فلاں کے فلاں کی بیٹی کتنی سلیقہ مند ہے تم نے وغیرہ وغیرہ
مگر ہم نے کبھی ان جملوں کو دل پر نہیں لیا کیونکہ یہ جملے اول تو دل پر لینے والے ہیں نہیں اور دوئم ہمارا دل ایسا دل نہیں جس پر کچھ لیے جا سکے اور سوئم اماں کی باتیں دل پر کون احمق لیتا ہے۔ تو ہماری یونہی عرف عام میں لڑکوں والی زندگی گزرتی رہی، گزرتی رہی گزرتی رہی یہاں تک کہ ہمیں  اپنے دفتر سے ( جو اس وقت ہمارا ہونے والا دفتر تھا ) ای میل آ گئی کہ مسٹر تشریف رکھیے۔ مسٹر یوں کہ انھوں نے بنی بنائی ای میل کو تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی۔ کھٹک تو ہمیں یہیں جانا چاہیے تھا سٹیٹس کو کی اس قدر اندھا دھند حمایت پر لیکن ہم اس وقت بہت ہی بیوقوف بلکہ فقط بے وقوف ہوا کرتے تھے۔
یہاں اختلافی نوٹ درج کرتے چلیں کہ لڑکوں والی زندگی ہم صرف عرف عام کی رعایت سے کہہ رہے ہیں ورنہ ہمارے ذاتی خیال میں ہر انسان کو اپنے رنگ نسل  صنف اور عقیدے سے قطع نظر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
بس بھئی، پھر ہمارا دفتر ہمیں ٹکرا گیا اور ہم اسے۔ یہاں ہم پر خاتون ہونے کا ایسا کوئی پکا اور آل اینکمپاسنگ لیبل لگایا گیا کہ آج تک اس کی گوند اتارتے پھرتے ہیں۔
بارے دفتر کے کچھ بیاں ہو جائے، اس سے پہلے کہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو خالصتا خواتین کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر ایسا ہوتا اور ہم کسی کھڑوس بابے کی سیکریٹیری ہوتے یا کوئی سکول ٹیچر یا کوئی فیشن ڈیزائنر یا پھر مدر آف آل ہاررز، کوئی ماڈل جن کے بینک اکاونٹس، خال و خد نیز قد و  قامت کو ذہن میں رکھ کر ہر سال لان کی نئی نئی کلیکشنز لانچ کی جاتی ہیں تو مسئلہ سمجھ میں بھی آتا کہ ہم میں اپنے کام کے لیے درکار خصوصیات کا فقدان ہے اور ایسے میں ہم اپنی روز و شب کی فرومائیگی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ ہو رہتے۔
لیکن۔۔۔۔ایسا نہیں ہے۔
ہے کچھ ایسا کہ ہم اپنی دن کی نوکری میں پی سی بی ڈیزائن کرتے ہیں، ایف پی جی اے کے ڈیزائنز کی ٹیسٹنگ کرتے ہیں اور پاور سپلائی کے کرنٹ کے کافی یا ناکافی ہونے  اور وولٹیج لیول کے مختلف سٹینڈرڈز کی باہم مطابقت پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں۔  آج ہی ہمیں سنکرونس اور اے سنکرونس ریسیٹس کے موازنے پر ایک لیکچر ملا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انٹل والے اپنی بسوں میں اے سنکرونس ریسیٹس استعمال کرتے ہیں تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے۔ لیکچر دینے والے صاحب چونکہ ہمارے دفتر کے واحد انسان ہیں تو ہم نے یہود و نصاری کی اندھا دھند پیروی  کی نصیحت پر اعتراض نہیں کیا۔
سی اور ویری لاگ سے ہماری جان پہچان کا علم رکھنے والوں کو جب ہماری  اردو کی استعداد پر شک ہوتا ہے تو ہم سے رہا نہیں جاتا۔ انگریزی کا تو ذکر ہم کرتے ہی نہیں جس میں ہم نے  جی آر ای میں ریاضی سے بھی زیادہ نمبر مارے یہاں تک کہ ہمیں اپنے انجینئر ہونے پر شک ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پناہ ملے گی تو صرف فرانسیسی  کے دامن میں اور تب جب ہم پکے فرینکو فائلز کی طرح اپنی زبان کو کسی اور زبان میں جنبش دینے سے قطعا انکار کر دیں۔
استعداد پر شک سے مراد یہ نہیں کہ لوگ ہمارے میر کے حوالوں پر اعتراض کرتے ہیں یا غالب کی تشریح پر۔ غلطی پکڑنا تو ایک طرف، ہمارے اردگرد  موجود لوگ اس نوع کے ہیں کہ ان کے سامنے میر و غالب کا نام لینا بھی شدید بے ادبی ہے۔  مقصود فقط اتنا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے جملے بولنے سے قاصر ہیں ، اس نوعیت کے جو ابتدائی کچی پکی جماعتوں کے قاعدوں میں سکھائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکریہ، کوئی بات نہیں، یہ تو ہمارا فرض تھا، جی میں جا رہی ہوں،  خدا آپ کو بھی خوش رکھے وغیرہ وغیرہ۔
 پیسے ضائع کرنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں مگر ہم کہ ایک اوور آل نحوست کے مارے ہوئے ہیں، پچھلے ہفتے ایک بھورا نوٹ کہیں گرا دیا۔  مجال ہے جو اس کا دل میں رتی بھر بھی ملال آیا ہو۔ ہاں اس نوٹ پر ضرور افسوس ہوتا ہے جس کی آج  ایک نام نہاد ٹریٹ ضد کر کے دی۔
قصہ اس ٹریٹ کا یوں ہے کہ ہم ایک کمپیوٹرائزاڈ موٹر ورک شاپ کے سامنے سے گزرتے گزرتے اس سے ملتے جلتے انیشئلز والی یونیورسٹی کو دل دے بیٹھے۔ جب خدا نے اس یونیورسٹی والوں کے دل میں رحم ڈال دیا اور انھوں نے اردو غزل کی روایت کے برعکس ہمیں قبولیت کا پروانہ بھجوایا تو ہمارے دانت چوبیس گھنٹے باہر رہنے لگے ۔ اس قدر کہ ہمارے گھر والے اگر عام گھر والے ہوتے تو انھیں اس مرتبہ تو وہ شک ضرور ہو جاتا جو تین سال قبل ہمارے ایک شہری مجنوں بننے پر بھی نہیں ہوا تھا ۔   پھر ہمیں کم از کم کسی کتے نے تو ضرور کاٹا ہو گا جو ہمارے جی میں آ سمائی کہ ہم اپنی خوشی میں اوروں کو بھی شریک کریں، اور پیسے خرچ کر کے۔
لیکن یہ پلان ابھی فرد فرد تھا کہ ہمیں ایک بفر کے ذریعے  خالصتا بی جمالو انداز میں طعنہ مارا گیا کہ ہم نے آج تک کوئی ٹریٹ نہیں دی۔ اب سیدھا سادا جواب اس کا یہ بنتا تھا کہ بندہ خدا، آپ نے مانگی نہیں تو ہم نے دی نہیں لیکن ہم سیدھی بات اونچی آواز میں کہاں کر سکتے ہیں۔ فورا تیار ہو گئے  حالانکہ ہمیں دبے الفاظ میں سمجھایا بھی گیا کہ زیادہ پیسے ضائع مت کیجیے۔
لیکن ہم نے آج تک کسی کی ڈھنگ کی بات مانی نہیں اور اس روایت کو ہم توڑنا نہیں چاہتے تھے سو کہا تو سن کے اڑا دیا۔
اس پر بھی ہم نے وضاحتیں دیں کہ ہم پہلے سے ہی  ٹریٹ دینا چاہ رہے تھے وغیرہ وغیرہ حالانکہ اس سے کہیں بہتر تھا کہ ہم اپنی میز سے مٹی جھاڑ لیتے۔ کمیونیکشن ، الا اس کہ کہ طنز پر مشتمل ہو، نہایت بے معنی اور بے مصرف شے ہے اور سامع و مقرر ہر دو کا وقت اور انرجی ضائع کرنے اور کائنات کی انٹروپی میں اضافہ کرنے کے علاوہ کسی کام نہیں آتی۔ یہ خیال ہمارا دن بہ دن راسخ ہوتا چلا جا رہا ہے حالانکہ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک خدا کا بندہ کہ شاید صاف صاف باتوں کا عادی نہیں، ہمارے فلسفے کو ایسے دل پر لے گیا جیسے ہم نے اس کے سر پر بالوں کی ڈسٹریبیوشن پر تنقید کر دی ہو۔  پھر وضاحتیں تو کمیونیکشن کے نچلے ترین قدمچے پر آتی ہیں اور اب تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ وضاحتیں دینے پر یقین رکھتے ہیں وہ گھٹیا پن کی حد تک بے وقوف واقع ہوتے ہیں اور انھیں اپنے آپ کو انسانوں کے بجائے حشرات الارض میں شمار کرنا چاہیے۔
نوٹ ٹو سیلف: اگلی مرتبہ جب ہم کہیں بھی، کبھی بھی، کسی کو بھی وضاحت دینے لگیں تو اس سے پہلے اپنے آپ کو گولی مار لینی چاہیے۔
خیر۔۔۔ہم نے ٹریٹ دی۔
اور اس پر تئیس میں سے کل چار لوگوں نے ہمیں شکریے کا لفظ دے کر مارا۔
ایک ہماری دوست جن کے شکریے کا محرک  ہم نے آئس کریم  شیک کے بجائے ان کی جاںخلاصی کو قرار دیا۔
ایک ہماری جاننے والی جنھیں ہمارے پروگرام کا آج ہی علم ہوا۔
نیز دو لڑکے جن کا شکریہ۔۔ویٹ فار اٹ۔۔ہم نے خود پہلے ادا کیا تھا لاجسٹکس میں مدد کرنے کے باعث۔
سچ یہ ہے کہ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ چند اونسوں کے بدلے لوگ ہمیں دنیا کی حکمرانی دے ڈالیں۔ نہ ہی ہمارے کسی کونے کھدرے میں یہ تمنا تھی کہ ایک ایک گلاس آئسکریم شیک کے عوض ایک ایک گلاب کی کلی لیے قطار یں بندھ جائیں۔ ہاں البتہ اگر مل کر لوگ ہمیں ایک عدد گلدستہ غیر پلاسٹک کا  دے ڈالیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو۔ لیکن انسان کی آرزووں کی حد بھلا کہاں واقع ہوئی ہے۔
چلیے شکریے جیسے تکلفات سے تو ہم یوں بھی گھبراتے ہیں مگر اگر اتنے لوگوں میں سے ایک بندہ، اگر ایک بندہ بھی ہمیں فقط اتنا ایکنولج کر دیتا کہ کدھر دفع ہو رہی ہیں آپ تو رائیگاں جانے  کے احساس کی اس قدر گہری دھند ہمیں جولائی کی شام میں نہ لپیٹے ہوتی۔
بات ہے ہی اتنی رسوائی کی کہ اتنے ڈھیر سارے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی ہمیں ایک عدد فریز کے قابل بھی نہیں سمجھا اور ہم اپنے تئیں بنے پھرتے ہیں کوئی تئیس مار خان۔  فیمنزم میں ایک اصول کے علاوہ ہمیں کبھی زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن اب اپنے ساتھ کے لوگوں کا رویہ دیکھ  کر پیٹریارکی ، پبلک سپیس پر قبضہ جمانے اور   ڈسکورس سے عورتوں کی آواز  میوٹ کرنے  کے حربوں پر ایمان ہو چلا ہے۔ ان ڈائریکٹ طعنہ البتہ دوبارہ مل گیا اور اب سوچتے ہیں کہ ان آدمیوں سے ہم نہ تو طعنے بازی میں مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ سوشل آکورڈنیس میں۔
خدا نے اگر ہمارا ساتھ دیا جیسا کہ وہ مجبور و مقہور طبقات کا دیا کرتا ہے تو ہم ہارڈوئیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی ہارڈوئیر ڈیزائنرز پر بھی پرچے لکھا کریں گے۔ یہ ضرور ہے کہ اس طرح کی سوچ کے ساتھ مالوالہ خاتون کی کامیابی پر لوگوں کا اچھلنا فہم سے باہر ہے کیونکہ انہوں نے اس معاشرے سے تعلق رکھنے کے باعث نہیں بلکہ اس سے دور رہ کر ترقی کی ہے۔ 

Wednesday, May 25, 2016

The curse of the extreme

Lying on the extreme of any curve sucks. It sucks big time, except when the curve represents the height of a population and you are near the right extreme and thus able to tower over most people in most rooms.
That extreme would be interesting, though of course I wouldnt know. In this case and this case only I am the mode and the median. Because of this I have to resort to weird shoes so that my boss and me might be able to see eye to eye on system level design issues. Contrary to my first impression, my current boss is a proper ras-gulla even though he accuses me of being brainwashed by media when he gets tired of my hyper modern views. But as far as professional conduct goes, he is a rare species due to his extremely gender blind opinions. Compared to him, the views of some of my age fellows about 'female engineers' are heinous and I shudder to think of the poor girls who might have to work with them in the future.

A word of caution is needed here:  I have personally found that I tend to accuse people of gender discrimination rather freely so I try to be cautious before passing judgements these days. Even the ras-gulla boss tried to teach me very straight forward stuff in the beginning but he was just trying to be helpful. Now the poor guy has to endure my unreserved criticism at any point where I think criticism is due and if he ever recalls me in the future he'll be mentioning me as a young lady with very strong opinions.

Anyways I have digressed as is my wont and we must return to the present.

I don't know why I can't have traits or streaks in moderation but I just can't.  I can't even blame it on my genes because my parents are two of the most normal and pragmatic people I know. I on the other hand am anything but.

A friend of mine says that she changes like a flip flop:  in a very short period of time. My u-turns,  on the other hand,  have a lower derivative but boy, are they some u-turns! Anyways this post was not about my turns and the way I change my ideas as other people change their hairstyle but it was about my abnormalities in general.

Ever since I heard a first hand account of a nasal surgery, I don't dislike my nose any longer but I absolutely loathe my social awkwardness which at 24 and a half has stopped being adorable and is just an indicator for boorish, uncultured and unsophisticated. Illiterate, too. Sophistication and elegance are traits that I would kill for but I simply don't have them:  that I why I have to resort to the study of computer architecture to fulfill my, you know, unfulfilled desires.

The PSTD that underlies my current rambling was triggered by a very traumatic event:  I was forced to attend a mandatory event where I was supposed to mingle with alien human beings. The sheer audacity of the command took my breath away but I put up with it just because it might lead to me gaining a janitorial position at my favourite place within the next ten years but the horror it turned out to be was unprecedented and unparalleled.

Socializing and networking with other humans is fine with me in theory and I can calmly discuss it in a foreign language from the safety of my bed but the practical hurdle is that I am not a social animal at all. Had Aristotle met me, he might have changed his famous opinion of mankind. My post- college days are particularly empty and I have taken to consoling myself by saying that many things I have been destined to be but a friend is not one of them.

I can and do discuss a broad spectrum of stuff with people I am comfortable with which includes my family, a couple of friends and the ras-gulla boss but when confronted by ordinary people I tend to become boring,  confused and tongue tied. If it is a large group, I can spend hours and hours sitting in a place with nary a syllable escaping my lips, desperately wishing for an escape door all the time. This party was no different:  I had started thinking that I had outgrown my social awkwardness but it seems to be the other way round. For some time I had been harbouring the notion that some of my colleagues generally give me a cold shoulder:  compared to the treatment I got over the weekend, these guys are practically members of my fan club and I'll have to strongly refrain myself from giving them huge grins and vigorous hand waves come Monday.
Emboldened by my new-found philosophy of do-anything and existence precedes being ,I even tried talking to people a couple of times. I failed miserably and pathetically.

Someone had the gall to walk up to me and remark on my quietness. He wasn't my rival but he was pretty high on the social awkwardness scale himself. Nor did he possess the sort of smile that might have made such remarks acceptable or even laudable. I listened to him talk with an obviously wandering mind, gave clear signals of discomfort and didn't bother asking his name. He didn't acknowledge me the next day.

As the only quiet observer in the room with a face that could turn milk sour, it was very clear to me that I was :

1. The most uncouth person in the hall
2. The least confident woman
3. The one least able to form new bonds and attachments
4. The only one scared out of her skin of new experiences
5. The most unfit person for moving away to a new place

These guys are said to have a psychologist who failed spectacularly in my case. My case of social awkwardness is actually so bad that my half- brother half-sahaili sibling who is more than ten years my juniour knows it, understands it, scolds me for it and gives me advice to protect me from myself. In return, I threaten to replace him by some new twelve year old with a more well behaved tongue.

I had been dreaming of going to Palo Alto for the social sophistication alone. Instead, I have been delegated to an official nerd haven. By this point, I am so tired of whining that I have stopped whining altogether. Had I possessed the energy, I could have nicely documented the various phases that one goes through after receiving an admission acceptance but somehow I am sick to the bone of my old self.

My old book-worm socially awkward to the extreme allergic to human self which also happens to be my present self essentially. It can also be safely predicted to be my future self, for today as well as for the days to come. I loathe reading and hate writing yet I am utterly incapable of doing anything else.

Still it would be nice to document it in a few words. After a very long wait, during which my time stopped while my whining could not, I got the news that there was after all someone in this big world ready to accept me as I am whereas another one did not deem me fit for them. Since I had been praying for this outcome, I spent about two months grinning 24/7. My facial muscles did a decade of work in these two months. Then the bitter reality, or rather, host of realities, caught up to me and I restarted whining day and night as usual. This might be some effect of Mir. Anyways due to some reasons I had to stop and now I am just quiet.

Farewells are poignant and a lot has been written about them in literature already. A unique perspective which I had the fortune to get this weekend was the kind of feeling you get when people all around you are saying fond goodbyes to each other, exchanging contact information, remembering past times and expressing hopes for the future.

All the while I sat, alone and quiet in a chair because I had no one to say goodbye to.

I think I managed to escape from this gathering with the least amount of human interaction of all the attendees.

And I thought I had changed. Ah, the tyranny of fortune. Once an outcast, an outcast forever.