Friday, June 28, 2013

اگنور لسٹ اور ایک بس سٹاپ کی روداد

اس جہانِ رنگ و بو میں ان لوگوں کی فہرست دراز تر ہوتی جا رہی ہے جنہوں نے صاحبۂ بلاگ کو اپنی اگنور لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اس صورت حال سے انتہائی متعلقہ اور بالواسطہ متاثرہ بعض اشعار بھی ہمارے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، مگر ہم نے سختی سے تہیہ کر رکھا ہے کہ کم از کم غیر معیاری منظومات یہاں جگہ نہیں پا سکتیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر قارئین شعر و شاعری سے چنداں شغف نہیں رکھتے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ناقدرے کے آگے شعر پڑھنا یا لکھنا ، پڑھنے یا لکھنے والے کی جانب سے انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔
تو ہم اپنا ماجرائے غم شروع کرتے ہیں۔ پڑھنے والے اپنی ذمہ داری پر پڑھیں۔
ہوا کچھ یوں کہ ہم نے ایک جگہ دو انٹرویو دیے، اور دوسری مرتبہ بطورِ خاص استری شدہ لباس زیبِ تن کر کے نکلے۔ قسمت سے ہمارا تعلق اس گروہِ انسانی سے ہے جسے نوکری کی تلاش میں نکلنے سے پہلے بھی اپنے کپڑے خود ہی استری کرنے ہوتے ہیں۔ پھر ان طویل نشستوں میں ہم نے کمالِ مہربانی سے بہت سے موضوعات پر اپنی رائے سے نوعِ انسانی کو نوازا، حالانکہ یہ کام ہم بآوازِ بلند کم کم کیا کرتے ہیں۔ ہمارا ایک ازحد ضروری شاپنگ ٹرپ بھی مس ہو گیا جس میں ہم کچھ کتابیں خریدتے اور بہت سوں کی زیارت پر اکتفا کرتے۔ مگر ہماری اس قدر دانی کا صلہ حسبِ دستورِ دنیا سرد مہری سے دیا گیا۔ اب ہم ہیں، بےروزگاری کے طعنے ہیں اور وہ تمنائیں ہیں جن کا اظہار ہم ہر نماز کے بعد اربابِ انٹرویو کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے کیا کرتے ہیں۔
خیر اتنا نتیجہ ضرور نکلا کہ ہم نے دل شکستہ ہو کر اپنے میدانِ کار کو خیرباد کہنے کی تقریباََِ تقریباََ ٹھان لی ہے ۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ یا تو فائنل ائیر پراجیکٹ بنانے کا بزنس شروع کریں یا پکے راگ سیکھنے کی طرف توجہ مبذول کریں۔ ویسے تو اور بھی شعبوں کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری نظرِ کرم کے منتظر ہیں، مثلاََ مصوری اور کوزہ گری، مگر انھیں ہم نے وقتِ پیری یعنی اگلی دہائی پر اٹھا رکھا ہے۔
بارے ایف وائے پی کا کچھ بیاں ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا پراجیکٹ ایک نہایت سیدھا سادا اور شریف پراجیکٹ ہے، جبھی ہم اس پر کام کرنے کا بہانہ کر کے انٹرنیٹ پر پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ جمالیاتی حس کے معدوم ہونے اور ساتھیوں کی نرم دلی اور کے باعث ہم زیادہ کاموں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے دوران ہم نے بہت سی باتیں سیکھی ہیں، جن کے بارے میں ایک تفصیلی پوسٹ پھر کبھی سہی۔ مختصراََ یہ کہ پراجیکٹ ایسا ہو کہ اس میں محنت، دماغ، وقت اور روپیہ کم سے کم خرچ ہو۔ اب نمبر کم آئیں تو ان کی خیر ہے ، کچھ سمجھوتہ تو کرنا پڑتا ہے۔
تو ہمیں مزید کچھ کمپنیوں نے بھی نظر انداز کیا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آج کل دنیا میں ایک ہی جگہ خالی ہے ، ہماری دوست کی۔ زیادہ کا ہم تقاضا نہیں کرتے، بس امیدوار میں ہمیں برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہماری سابقہ دوست جو ہماری ذاتی نقاد بھی ہوا کرتی تھیں، اور انھوں نے اس عہدے کا کبھی ناجائز تو کیا ، جائز فائدہ بھی نہیں اٹھایا، ہم سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ ہماری دوستی میں ان کا موبائل ہمیشہ رقیبِ روسیاہ کا کردار نبھاتا رہا مگر اس کے باوجود وہ ایک شریف خاتون ہیں۔ اگرچہ وہ یہ بلاگ نہیں پڑھتیں، مگر پھر بھی ہماری دعا ہے کہ خدا انھیں مناسب وقت پر جنت میں اچھی سی جگہ دے، آمین۔
انھیں ہم دھمکیاں تو دے چکے ہیں کہ اگر ہمارے ان کے درمیان گیلیکسی نوٹ سے بڑی کوئی شے آئی تو اس کا خون ان کی گردن پر ہو گا مگر بیک اپ پلان بھی تیار رکھنا چاہیے۔ دوست تو ہماری ایک اور بھی ہیں مگر اس بلاگ کی باقاعدہ قاری ہونے کے باعث ہم انھیں بڑا اونچا درجہ دیتے ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ ہم نے بڑی محنت سے ایک مضمون لکھا، اس کی نوک پلک سنواری اور اسے ایک ادارے کو بھیجا اور انھوں نے بھی اس بیچارے کو نظر انداز کر دیا۔ اب زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم انھیں فون کر کے آئندہ رسالہ نہ خریدنے کی دھمکیاں دیں، سو وہ ایک آدھ دن میں دینے والے ہیں۔
نرگسیت بڑی 'کول' شے ہوا کرتی تھی مگر برا ہو ایک خود ساختہ ماڈل صاحب کا کہ انھیں نے ہماری آنکھوں سے پردے اٹھا دیے۔ اب ہماری سمجھ میں آ گیا ہے کہ زیادہ میں میں یا ہم ہم کرنا کس قدر فضول بات ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم احمق لوگوں کے بارے میں لکھنا پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے خود سے زیادہ موزوں ہمیں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
تو ہماری ایک دوست اور ہم ایک بس سٹاپ پر کھڑے اپنے اپنے مسائل میں گم تھے کہ یکایک ہمیں آنکھ کے گوشے سے کسی کی دلچسپ زلفیں دکھائی دیں۔
ہم(دوست سے): دیکھو ذرا اس خاتون کے بالوں میں کتنے اچھے 'کرلز' ہیں۔
دوست: ہاں واقعی، کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔
ہم: کاش میرے بال بھی ایسے ہوتے۔ تمھیں اس طرح بال رول کرنے آتے ہیں؟
اتنے میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بانکے میاں ، جو کچھ دور ترچھی ٹوپی پہنے کھڑے تھے اور چہرے مہرے سے کافی معقول انسان دکھائی دیتے تھے، خاتونِ مذکورہ کو دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے خاتون کی ورٹکل سکیننگ کی، یعنی انھیں سر تا پاؤں، پاؤں تا سر اور پھر سر تا پاؤں دیکھا۔ ابھی ان کی تسلی نہ ہوئی تھی کہ ہم نے دخل در معقولات کی نامعقولیت کا اندازہ کرتے ہوئے نظریں ہٹا لیں۔تصدیق کے واسطے اپنی دوست کی طرف دیکھا تو وہ بھی ہونق چہرہ بنائے ہمیں دیکھ رہی تھیں۔
ہم دونوں نے بیک وقت اثبات میں سر ہلایا۔
میں: یار ہمارا ڈی ایس پی پراسیسر اتنا سست ہے۔ کیا خیال ہے، ان بھائی کو نہ جوڑ لیں پراجیکٹ میں، تصویروں کی پکسل بہ پکسل پراسیسنگ کرنے کے لیے؟ ہمارے تھکے ہوئے پراسیسر کی اوقات ہی کیا ہے ان کے سامنے۔
دوست: ہاں ہاں یار چلو ان سے پوچھتے ہیں، کیا پتہ راضی ہو جائیں۔
ہم: اور ہماری زندگی سنور جائے۔
دوست: یعنی ہمارا سسٹم حقیقت میں رئیل ٹائم ہو جائے۔
ہم: اور ہمیں گولڈ میڈل مل جائے۔
دوست: بھائی صاحب کو تو پروگرام بھی نہیں کرنا پڑے گا,کجا یہ کہ سنکرونس اےسنکرونس کے جھنجھٹ میں پڑیں۔
ہم: بس کہہ دیں گے، اس کیمرے میں دیکھتے رہیے، ابھی ایک خاتون آ رہی ہیں۔
لیکن ہوا وہی جو خیالی پلاؤ پکانے والوں کے ساتھ بالعموم ہوا کرتا ہے۔ ایک بس آئی اور یہ درِ نایاب ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ظالم ہمارا گولڈمیڈل کیا لے گیا، معلوم ہوا کہ سارا زمانہ ساتھ لیتا گیا۔ شاید خسرو نے صدیوں قبل ہمیں ہی بیٹھ کر ڈھول بجانے کی نصیحت کی تھی۔
اب ڈھول میسر نہیں تو نہ سہی، ڈفلی تو ہم بجا ہی لیتے ہیں، سو وہ بجا رہے ہیں۔
نوٹ: پراسیسر کا نام اور بھائی کی ٹوپی کا رنگ رازداری کے خیال سے ظاہر نہیں کیا گیا۔


Wednesday, June 12, 2013

منکہ ایک آزاد ایلف

اگرچہ بے رنگ، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
تو سند کے طور پر ہم بیان کرتے ہیں کہ آج سے ہم ایک آزاد اور خوش باش ایلف ہیں، مجبور و محکوم ایلفس سے بالکل جدا۔ لوگ باگ نوٹ کر لیں، مؤدب رہیں اور ہم سے بحث کرنے سے پرہیز کریں کہ اب ہمارے پاس جواب دینے کا وقت بھی ہے اور دلائل گھڑنے کے لیے تھوڑا بہت دماغ بھی۔ اپنے پسندیدہ موضوعات کی فہرست ہم جلد مرتب کیے دیتے ہیں، اگر ہم ان میں سے کسی موضوع پر تقریر کرنے لگیں تو سر ہلانے اور کبھی کبھار جی جی کرنے کے علاوہ کچھ بھی کرنا نہایت خطرناک ہے۔ وہ دماغ جو ہم نے چار سال سینت سینت کر رکھا، اب استعمال میں آئے گا۔
اب یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آزاد، مگر کس سے؟ کچھ کم فہم لوگ تبصرے کر چکے ہیں کہ بی بی، آپ آخر پابند ہی کب تھیں اور بھلا کب آپ نے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کی جو آپ اب آزاد ہوئی ہوں۔ تو ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادی بذاتِ خود ایک احساس ہے، ضروری نہیں کہ کسی شے سے ہی آزاد ہوا جائے۔ لیکن ہمارے فلسفوں کو اگر دنیا آرام سے قبول کر لے تو پھر رونا کس بات کا ہے۔
اس دورانیے سے ہمارے بہت سے سنہرے خواب وابستہ ہیں، جو کہ ہم تقریبا اس وقت سے دیکھ رہے ہیں جب ہمیں ڈرا دھمکا کر سکول میں داخل کرا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام عرصہ ہم نے پڑھتے کم اور خواب دیکھتے زیادہ گزارا ہے۔اب ہمیں ذرا عملی مشاغل اختیار کرنے پڑیں گے کہ ہم ایک نام نہاد عملی زندگی میں داخل ہو چکے ہیں۔
کچھ چھوٹے موٹے کنکر ابھی ہماری راہ میں ہیں، ان کو اصولا دھیان میں رکھنا چاہیے۔ پچھلے چار ماہ میں ہم پراجیکٹ کا کام مکمل کرنے کے کافی دعوے کر چکے، اب سنجیدگی سے کام کرنا پڑے گا۔ خیر اس کو ہم بوجھ نہیں سمجھتے بلکہ اس کی خاطر خوشی خوشی پریشان ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں کسی کمپنی کو آمادہ بھی کرنا ہے کہ وہ ہمیں اپنا (یعنی کمپنی کا) بیڑا غرق کرنے کی اجازت اور توفیق دے۔ اگر فی الحال ہمیں اپنے میدانِ کار سے متعلقہ کام نہ ملا تو پھر کچھ اور کرنے کی کوشش کریں گے۔ کسی رسالے یا اخبار کا ایڈیٹر بننا ہمارا پرانا شوق ہے۔ ایڈیٹروں کے طلبگار اشخاص اور ادارے بلاجھجھک ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ بلاگ کے ذریعے رابطہ کرنے والوں کے لیے ہم ذرا کم تنخواہ پر کام کرنے پر بھی تیار ہو جائیں گے۔ ادبی رسالوں بالخصوص کلاسیکی ادب کی خدمت کرنے والے مجلوں کے لیے خصوصی رعایت۔ چونکہ ہم دو دو چار کرنے والے انسان ہیں تو یقینا رسالے کی معاشی حالت میں بھی فرق پڑے گا۔
 ایک نسبتا کم پرانا شوق کھیلوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ویڈیو گیمز کھیلنے کا ہمیں خوب تجربہ ہے۔ اگر ہمیں کسی گیم کی تیاری پر لگا دیا جائے تو ہم اس کی کہانی بھی لکھ لیں گے اور مختلف کرداروں کی آوازیں بھی نکال اور نکلوا لیں گے۔ کوڈ لکھنے کو تو خیر ہم ورڈپریس والوں کی طرح غزلیں کہنے کے برابر سمجھتے ہیں،جملہ پابند و آزاد نظموں سے معذرت کے ساتھ۔ فلموں اور تصویروں کا تجزیہ بھی کر لیا کرتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو گرافکس کے لیے الگ پراسیسر بھی بنا سکتے ہیں۔
لکھتے لکھتے ہی خیال آ رہا ہے کہ ہم انسان کم اور منہ اور دانتوں کے جملہ مسائل کا حل کوئی منجن زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ پچھلے دنوں ہم نے کافی سارا خیالی پلاؤ پکایا، اپنی ان تعطیلات کے مشاغل کے بارے میں سوچتے سوچتے، مگر ازلی سستی کے مارے کوئی بھی خیال لکھا نہیں۔ اب سب بھول بھال گئے، سو سب کچھ دوبارہ پکانا پڑے گا، اگرچہ وہ امتحانات کے دوران چھٹیوں کے بارے میں سوچنے کا لطف اب کہاں۔ کڑوا سہی مگر سچ ہے کہ پرچے سے پچھلی رات الٹی سیدھی کتابیں پڑھنا اور فلمیں دیکھنا اب کہاں نصیب ہو گا۔
تو ہمارے ایجنڈے کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔
۔۔۔ اگرچہ اب ہم رات کو سونے کے بعد آرام سے دوپہر کی خبر لا سکتے ہیں اور اس کے لیے پطرس کی طرح نماز پڑھنا بھی ضروری نہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ اب عمر کے اس حصے میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کر ہی لیں۔ کب سے ارادے باندھ رہے ہیں کہ صبح سویرے اٹھ کر دنیا کی سیر کریں گے۔ دیکھیے، شاید اب کے کر ہی لیں۔
۔۔۔دنیا کی ذرا زیادہ بڑے پیمانے پر سیر کرنے کا بھی ہمارا ارادہ ہے، جس قدر جیب اور ابا اجازت دیں۔ شاید حسرتوں کا روما، حیرتوں کی دلی دیکھ آئیں۔ خدا اس شہر اور اس کے باسیوں پر اپنا کرم کرے، ہمارے قدم رنجہ فرمانے سے پہلے بھی اور بعد بھی۔ ایسا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ کے ساحلوں پر تنِ تنہا تو گھوم نہیں سکتے، سو وہاں سے بھی لوگوں کا مغز اور گرمی کھا کر لوٹ آئیں گے۔
ویسے اب اس قدر ناشکرا ہونا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہاں ہم اور بھی بہت سی اشیائے خوردونوش ہڑپ کریں گے جو ہر پھیرے میں کیا کرتے ہیں۔ مگر قدرتی حسن دکھائی دینے کا کوئی خاص امکان نہیں۔
۔۔۔واپس آئیں گے اور ایک عدد سفرنامہ تحریر کریں گے، یادداشت سے کہیں زیادہ تخیل کے بل بوتے پر۔ پھر اسے زبردستی لوگوں کو پڑھوائیں گے۔
۔۔۔کسی اور صنف میں بھی طبع آزمائی کریں گے اور اس کی تشہیر بھی کریں گے۔ طریقہ برائے تشہیر: دیکھیے نکتہ نمبر 3۔
۔۔۔پورا دن سوئیں گے، روز آئسکریم کھائیں گے ،رات رات بھر فلمیں دیکھیں گے لہذا خوش رہیں گے۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔
خوش رہنا اس ایجنڈے کا مرکزی نکتہ ہے، آرام کرنے اور کھانے پینے کے علاوہ۔ خدا ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور حالات سازگار بنائے، آمین۔

Friday, June 7, 2013

For the sake of old times, and record-keeping

Farewells are such a clichéd but integral part of life. The farewell itself might be acceptable, but people insist on saying the same things over and over again. Ignoring a book I am supposed to read for a dangerous paper, I'll try to gather my thoughts and compose something coherent.
A span of four years is-well, a long span, honestly. Now I look back and I am amazed that I lasted such a long time in a place with which I have lots and lots of compatibility issues. Still, mine is an exceptionally sad existence, for I can confess that I have no feeling of belonging whatsoever. No sense of attachment to the place I have called my college for such a long time, for sake of a better word.
All in all, the number of people who made it bearable can be counted on the fingers of one hand, and the number of teachers I intend to remember twenty years into the future can be counted on one alone.
I might have learned some important things there, but I have forgotten them among the load of completely useless things I was forced to cram in my mind. Besides, I realized that quiet people will always be quiet, so it is better for them to find a corner where they can be comfortably so.
Lest I become too ungrateful, I should mention that it was this place that introduced me to a language I personally place on the same pedestal as Urdu, even though it does not have a Mir of its own.
Most importantly, I actually found some people who can tolerate me for really long periods of time. What's more, they tolerate me with patience and compassion. They almost understand the entire range of  oddities, complexities and grave problems that make up Spook, such as: No one can sip through Spook's straw. Spook can not come to college every day. Spook must laugh at every senseless, lame or awkward joke. Spook is really, actually, seriously slow.
Still, they understand, and what is most amazing, some of them have a way of summing things up that lead to an unexpected increase in Spook's self knowledge.
The extremely refined cosmological constant may be considered an evidence of a divine entity, but I consider the case of my having friends who share my tastes a stronger proof of His existence.
There is one who has been a constant source of knowledge and guidance all these years. She is the person I normally turn to when I need to understand anything pertaining to science, maths or literature. She is the only soft hearted critic in the entire world, I think. The lurking danger of a future in a separate place has shown me that her absence will be detrimental to my tastes: in a couple of days I have gone form the usual sanam mera sukhan soon aashna hay and teri yay kam nigaahi neemcha hay type to this class of poetry:

جہاں پھولوں کو کھلنا تھا ، وہیں کھلتے تو اچھا تھا

تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا

Still, with this taste, there is a real danger of me publishing a book and becoming really, really famous. She might be sorry for ditching me, then.
Then there is one whom I usually pick arguments with. We argue for hours on end, on every sort of topic, from chess to fiction and from relativity to human rights. We think in astonishingly similar ways and have awkwardly similar hopes and fears. We both get obsessed and un-obsessed with the strangest things as quickly and as often as other people get with new fashions. I  might add that we have plans for the future together. After saving some money through the usual dreary jobs, we shall buy a van and run it on one of the local routes. I'll be the drive and she'll be the conductor because she enjoys shouting 'Sadddaarr Saddaarr Saddaarr'.
There is one, whom I might have been able to befriend, had I been able to ditch the critic, though the two of us do not have much in common, apart from a love of books. Also, there is the vast difference of class between us, which always reminds me of Iqbal: kargas ka jahan or hay, shaheen ka jahan or. The problem solver through and through. She can be described as a modern day Asghari with a gold medal. One that she did NOT acquire through rote learning, contrary to the belief of the general and unavoidably misogynistic public. In one of the toughest disciplines of engineering. In one of the most competitive places around. It is only logical that I be in awe of her.
There is another one who  has done it ALL: Watched every movie. Visited every place in the city. Aced every paper. Seriously, she has more common sense than three normal people or ten Spooks combined together.Her tastes and opinions are absolutely the best in everything, from shirts to shoes to public dealing to movies. Besides, she can teach slow students,as I still remember that she patiently explained a circuit with dozens of amplifiers to me a couple of hours before the exam. Even though I disliked amplifiers, I reproduced it nicely in that paper, and that is in no way the only instance of her teaching me.
There is one with whom I have discussed books and books, in the middle of dangerous classes.
Then there are some whom I constantly have to lecture to take it easy. I have often been worried about their blood pressure, more than I am ever worried about my assignments.
I remember recommending Georgette Heyer to one, and Suzanne Collins to another.
Then there is a bus fellow. I don't reply to 80% of her queries about my whereabouts.
With a lot of them, I have laughed and joked and talked during seemingly infinite lectures. With others, during the dreadful hours before the exams, in this common room and that.
There are some who shall not be graduating this year. The saat number psychoanalyst. The one whose cell number I still have with the 'gr' tag in my mobile. Her blog inspired me to create one in the first place. The one whom a friend calls 'shair o shaiiri wali larki.' I spent a short time with them, but they are my friends, nevertheless. Even though I am one of the laziest persons around, and particularly bad at keeping in touch.
Some of them are officially my best enemies forever. Official or not, all of them have been a source of strength, common sense and inspiration and a breath of fresh air, in a place particularly devoid of all these things. To borrow Bilbo's words, I don't know half of them half as well as I should like. Still, I can safely say that my girls  are some of the finest of the specie, and I have nothing but the highest hopes and the absolutely best wishes for them.