Thursday, August 8, 2013

Eid with high fantasy and a broom

So it is Eid again. One of the very few predictable things in life, that can be relied upon to come every year.
Finally I am tired of playing the bayrozgari card. It failed to fetch any sort of pity or compassion from a lot of quarters. People ignored the bayrozgar spook just as pointedly as they had been ignoring the student one. Almost no one understands the pathos I am in, being so very old and still dependent on others. So I have decided to ditch the card, keep my ego locked up at home and do some serious job hunting.
Life is so cruel. Sigh.
These days I am reading the first book of an epic fantasy series, titled The Way of Kings. Apparently there are nine more books to come in this series. Hopefully, Brandon Sanderson, the writer, will not be as slow as GRRM.
Writing stories, particularly those with a touch of fantasy, has always been a dream for me, mostly because my story writing skills are truly pathetic. For some time, I have been trying to convince a friend with a good imagination to write something. She even wrote a novel once, so she can write one again. Please?
As for the broom, it is an integral part of Eid. Always has been, always will be, since the chances of AI and computer vision etc etc progressing enough to develop cleaning algorithms for our desi homes in near future are pretty slim.

Friday, August 2, 2013

زندگی بعد از ریٹائرمنٹ

تو آج کل ہم ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، پنشن اور دیگر مراعات کے بغیر۔ شاید ایک دو مہینے میں ہم اس قابل ہو جائیں کہ ریٹائرڈ افراد کی زندگی پر ایک ضخیم کتاب لکھ سکیں۔ فی الحال چھوٹی موٹی پوسٹوں پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔
قصہ یہ ہے کہ ہمارے غیر پیشہ ورانہ سکلز کے بارے میں تو کسی کو کسی قسم کا شک شبہ نہیں کہ ہم سند یافتہ نکمے اور کام چور ہیں۔ اب گھر میں رہنے کے باعث لوگوں کو شک ہو گیا ہے کہ ہمارے پیشہ ورانہ سکلز کے حالات بھی چنداں مختلف نہیں۔ پھر پڑھنے پڑھانے سے ہم نے چھٹی کر لی ہے کہ سکول میں زبردستی جمع کرائے گئے بچے کو رسی تڑا کر بھاگنے کا موقع اب ملا ہے۔ اگرچہ اب ہم کچھ تو لوگوں کے رویے کی وجہ سے اور کچھ اپنے ہر فیصلے پر پچھتانے کی عادت کے باعث اس فیصلے پر پچھتا رہے ہیں، لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں اپنی بزرگی کا بخوبی احساس ہے اور ہم تقریباََ تمام وقت اس کا دھیان رکھتے ہیں مگر نجانے کیا بات ہے کہ لوگ ہمیں وہ رعایتیں دینے پر تیار نہیں ہوتے جو معمر افراد کا حق سمجھی جاتی ہیں۔ اب ایک آدھ دن قبل ہی کا ذکر ہے، ہم حسبِ معمول اپنی اماں سے پوچھنے گئے کہ چونکہ وہ ہمارے میلے کپڑوں پر کئی مرتبہ ٹوک چکی ہیں تو اب ہمیں کون سا لباس زیبِ تن کر نا چاہیے۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر ایک تقریر کی جس کا ملامتی کلمات حذف کرنے کے بعد مفہوم یہ بنتا تھا کہ ہماری عمر اتنی ہو چکی ہے کہ ہمیں خود علم ہونا چاہیے۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہماری عمر واقعی اتنی ہو چکی ہے تو کیا ہمارا احترام لوگوں پر واجب نہیں؟ اگر کوئی بیچاری ڈریسنگ سینس(یا کامن سینس) کی کمی کی ماری کچھ پوچھ رہی ہے تو اس کی مدد کرنے میں کیا حرج ہے۔لیکن نہیں صاحب، ہماری جملہ حماقتوں کا مفصل بیان ضروری ہے یہاں۔ اگرچہ ہم نے اپنے تئیں اپنی اماں کو سمجھانے کی خوب کوشش کی ہے کہ وہ فکر مند نہ ہوں، ہم ایک سیکریٹری رکھیں گے اور ایسے ادق مسائل اس سے حل کرایا کریں گے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دماغ کو جہاں تک ممکن ہو، غیر ضروری باتوں سے خالی رکھنا چاہیے تاکہ ضروری باتوں کی جگہ بآسانی نکل آئے( اب ہم سے ضروری باتوں کی فہرست نہ مانگی جائے)۔اس معاملے میں ہم شرلاک صاحب سے متاثر ہیں، جو نظامِ شمسی کے سیاروں کے نام جاننے سے پرہیز کرتے تھے۔ پھر کچھ جگہ کی کمی کا بھی مسئلہ ہے۔ آخر یہ ہمارا دماغ ہے، رابرٹ لینگڈن کا نہیں کہ ہر طرح کا کاٹھ کباڑ اس میں بھر لیا جائے۔ لیکن ہمارا معاشرہ ذرا سا ادھر اُدھر چلنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ پھر بزرگوں کے احترام میں یہاں یقیناََ کمی آئی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو الزام دیں۔ شاید مغرب سے متاثرہ اس طرزِ زندگی کے، جس کے ہم آج سے قبل بہت شائق ہوا کرتے تھے۔