Sunday, November 22, 2015

الماری سے نکالے جانا


لوگوں کی الماری میں ڈھانچے ہوا کرتے ہیں اور ذرا دلچسپ قسم کے۔ ہم جیسا انسان جو ماضی، حال اور مستقبل سے  یکساں طور پر مبرا ہو، اپنی الماری میں فقط دوسروں  کی پسند کے  کپڑے پاتا ہے اور وہ بھی گول مول کیے ہوئے بغیر تہہ کے جو شارٹ نوٹس پر  کوئی انسان نکال کر پہن بھی نہ سکے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نوع انسانی سے  چھچھلتا ہوا تعلق رکھنے کے باعث دھڑلے سے انھی شارٹ نوٹس پر نکلے ہوئے  کپڑوں میں انٹرویو دینے بھی چلے جاتے ہیں۔

ماضی ، حال اور مستقبل سے ہمارے تعلقات یکساں طور پر کیوں منقطع ہیں، یہ بھی سنتے جائیے۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہم کچھ انسانوں سے واقف ہوا کرتے تھے مگر پھر جیسا کہ رسم دنیا ہے، ان رشتوں پر وقت کی گرد پڑتی گئی، پڑتی گئی اور پڑتی گئی یہاں تک کہ اب گرد کے سوا  کچھ ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا ۔ ہماری اینٹی سوشل ٹینڈینسیز کو جلا ملی کالج میں اور پھر نوکری پر پہنچنے کے بعد تو ہم ہر قسم کے جھنجھٹ سے آزاد ہو گئے۔ حال ہمارا یہ ہے کہ لوگ ہمیں صبح میں  باس کے پاس  بیٹھے ہوئے دیکھ لیں تو انھیں بھی سلامتی کے دائرے سے نکال دیتے ہیں کیونکہ شاید انھیں بھی اتنا تو اندازہ ہے کہ ایک کھڑا ہوا بندا ایک بیٹھے ہوئے بندے کو سلام کرے اور برابر میں  بیٹھے ہوئے  دوسرے بندے کو قطعا نظر انداز تو بہرحال تھوڑا سا آکورڈ تو ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ایسے موقعوں پر ہم دل ہی دل میں دانت ضرور نکالتے ہیں ۔ جی چاہتا ہے کہ اپنی نحوست کا قصہ  بآواز بلند  چھیڑیں مگر افسوس ان بے شمار سخن ہائے گفتنی پر جو خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے۔ ہمارے  حالیہ باس اس دفتر میں ہمیں انسان  کے آس پاس کی شے سمجھنے والے واحد شخص ہیں لیکن اب شاید ہمیں کسی اور کے سر منڈھ دیا جائے اور ہمیں پھر سے انٹیلیجینٹ فرنیچر کا ٹکڑا بن کر زندگی گزارنی پڑے۔

انٹیلیجینٹ فرنیچر جو سسٹم ڈیزائننگ جانتا ہو۔

اپنا دل بہلانے کو ہم کہا کرتے ہیں کہ ہم اس دفتر میں یوں رہتے ہیں جیسے میر کسی محفل میں کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہ بھی ہم خود سے ہی کہا کرتے ہیں کیونکہ اول تو ہم کسی  غیر سے کچھ کہتے نہیں اور دوئم میر کو میر ناشناسوں کے سامنے بیان کرنے کی جہالت کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔

یہاں ہم یہ بھی اعتراف کرتے چلیں کہ ہر ہاتھ سے جاتی ہوئی چیز کی طرح ان کی قدر بھی ہمیں اب محسوس ہو رہی ہے۔ چونکہ ہم ان کو برا بھی یہیں کہتے رہے ہیں تو اب بھلائی کا سرٹیفیکیٹ بھی یہیں دیں گے۔ مستقبل کے بارے  میں ان کی دلسوزی سے دی گئی کرئیر ایڈوائس  کا شاید ہم پر کبھی کوئی اثر بھی ہو۔ کبھی یہاں سے تشریف لے گئے تو اپنی تمام دکھی داستانیں ان  بیچارے کے کانوں میں انڈیل کر جائیں گے، اگر یہ اس وقت تک موجود رہے تو۔ 

بہرحال ان کی تعریفوں کے لیے ہم اپنی خود نوشت میں ۔میرا پہلا انسانی باس۔ کے نام سے ایک باب مختص کریں گے۔ویسے ان سے پچھلے باس بھی ہمیں انسان سمجھا کرتے تھے مگر وہ اتنے بڑے ہیں کہ ہم ان کے سامنے بالکل چوں چراں نہیں کرتے۔ فی الحال ہمارا مقصد تھا ، نوع  انسانی سے اپنے کٹے ہوئے ہونے کی تصویر کشی کرنا اور امید ہے کہ ہم اس میں کچھ کچھ  کامیاب ہو گئے ہوں گے۔

تو ایسے انسان کو جسے اپنے دفتر سے  دی ان ٹچ ایبلز آف ایکس وائی ایکس لکھنے کی شدید تحریک ملتی ہو اور جسے معلوم ہو کہ اس کی کنویں کنارے تصویر پر بھی سوشل میڈیا پر واحد تبصرہ اس کے کنڈل ٹچ کے  حالیہ کوارڈینیٹیس کے بارے میں ہو گا اور جس کا نام کائنات کی اجتماعی اگنور لسٹ میں کہیں اوپر اوپر پایا جاتا ہو اور جسے اپنے ملک میں رہتے ہوئے نارمل انسانوں سے دو نارمل جملے کہنا ناممکن لگتا ہو، اس کے لیے خاصا انوکھا تجربہ ہے، اپنا لکھا ہوا ادھر ادھر بٹتے ہوئے دیکھنا۔

ناپسندیدہ کپڑوں کے علاوہ ہماری الماری میں ایک اور چیز بھی پائی جاتی ہے اور وہ ہیں کاغذ۔ کاغذ ہی کاغذ، ہر قسم کی بکواس سے سیاہ   کاغذ۔ زیادہ تر تو اس زمانے کی یادگار ہیں جب ہمیں اینٹینوں اور اوپریشنل ایمپلافائرز پر دھیان دینا چاہیے تھا اور غلط وقت پر غلط چیزوں پر دھیان دینے کی روایت کے مطابق ہماری دلچسپی ادب میں ہوا کرتی تھی۔ دیکھیے شعر بذات خود ذرا غلط چیز ہیں مگر ان کا صحیح وقت استعمال ، مثلا کسی کے سامنے پھینکنے کے لیے، بڑی کلاس کی حرکت ہے مگر مائیکرو ویوز پڑھنے کے وقت پر شاعری کی کتاب کھول کر بیٹھ جانا بے حد گھٹیا کام ہے۔ کتنا گھٹیا، اس کا اندازہ  اب گریجویٹ سکولوں کے داخلہ شدگان کے اوسط جی پی اے دیکھنے سے ہوتا ہے۔

یہ تو شاید ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم اوائل شاعری میں اپنے لکھے سے دنیا میں آگ لگانے کا سوچا کرتے تھے مگر ہماری اماں کی رائے میں اس فعل کا مناسب مفعول خود ہماری شاعری ہے۔ وہ بھی یوں کہ انھیں ہم نے آج تک ایک سطر نہیں پڑھنے دی  ( وہ واحد شعر بھی نہیں جو ہم نے خالص ان کے لیے کہا تھا، خریدیں گے منافع دے کے اپنا، ترے سب ہی خسارے ڈھونڈتے ہیں ) ورنہ وہ فاعل کا فریضہ خود سنبھالنے کی سوچیں اور مفعول کا ہمیں تھمانے کی۔

بہرحال تو اب ہمیں یہ علم ہوا ہے کہ دنیا نہ تو کسی کو خوش رہنے دیتی ہے، نہ آئیڈئیلسٹ اور نہ ہی الماری میں۔

ایک شام ہم نے یونہی ایک اخبار کا ادارتی صفحہ کھولا اور ایک  فکاہیہ کالم پر نظر ڈالی جو ہم کبھی شوق سے پڑھا کرتے تھے، جب ہم سیاسی نابالغ ہوتے تھے اور اس کے لکھنے والے ادبی بالغ۔ اس میں ایک شعر نما شے پر غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ ایسی بات ہم بھی کبھی کہہ چکے ہیں مگر وزن میں۔ خود پر ادبی سرقے کا الزام لگاتے ہوئے جب  انٹرنیٹ پر اصل شاعر کو تلاش کرنے کی سعی کی تو کھلا کہ ہماری شاعری لوگوں نے چھ آٹھ جگہ بانٹ رکھی ہے اور وہ بھی زیادہ تر غلط حالت میں۔تہہ دل سے مانتے ہیں کہ ہماری شاعری نری بکواس ہوتی ہے لیکن اسے درست طور پر نقل نہ کیا جائے تو یہ انتہائی بکواس کو جا پہنچتی ہے ۔ پھر ہمارے شعر کو کوئی دھکا دے کر وزن سے گرا دے، یہ  ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود برداشت نہیں ہو رہا۔ اخلاق تو ایک نظریے کےمطابق مڈل کلاس کے بھیڑ پنے  کے سوا کچھ بھی نہیں مگر وزن ، جناب من، بڑی ہی اہم چیز ہے۔

پھر لوگوں نے جابجا ہماری باتیں تقسیم کی ہی کیوں، یہ بھی ہم سے ہضم نہیں ہو رہا۔ کبھی اپنی شاعری چھپوائی تو اس فقرےکے ساتھ چھپوائیں گے : خبردار، اسے شاعر  ( جی ہاں، شاعر) کی اجازت کے بغیر ہرگز نہ پڑھا جائے۔ اور  سمجھ لیجیے کہ شاعر کی اجازت آپ کے لیے نہیں ہے۔وجہ آپ کو آئینے میں نظر آ جائے گی۔ 

یہ دنیا۔۔ایک تو یہ دنیا ہماری سمجھ میں نہیں آتی، جبھی تو ہم ریاضی اور وی ایل ایس آئی ڈیزائن پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ دنیا اگر دفتر میں ہو تو ہم سے ایسا سلوک کرتی ہے کہ ہمیں اپنے وجود رکھنے پر خطرناک قسم کے شبہات ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی سڑکوں پر ہو توخواہ مخواہ گھورتی ہے۔ کالج میں اس نے فقط ہماری تعلیم اور شخصیت میں خلل اور خلائل ڈالے ہیں۔انٹرویو  پینلوں ،داخلہ کمیٹیوں اور ادارتی بورڈوں  میں بیٹھ کر یہ ہمیں سراسر مسترد کیا کرتی ہے   اور عام زندگی میں جب ہمیں نظر انداز نہ کرےتو ذلیل کر رہی ہوتی ہے۔

پھر جب یہ ہماری اجازت کے بغیر ہمارے لکھے پر کچھ کرے ، چاہے وہ واہ واہ ہی کیوں نہ ہو، تو ہم سے رہا نہیں جاتا۔

اسی دنیا میں لوگوں کی کئی کئی دہائیوں تک لمبے چوڑے ملکوں پر مطلق العنان مرضی چلتی ہے مگر ہمارا ا پنے الفاظ تک پر کوئی اختیار نہیں۔ آج کل تو بالکل بھی نہیں کیونکہ  اپنی چوبیسویں سالگرہ پر بڑے سے  کیک  کا آدھا حصہ کھانے کے بعد ہم بے حد  زہریلے اور بے نیاز  ہو گئے ہیں۔ شاید کچھ حصہ اس احساس کا بھی ہو کہ زندگی میں باتیں دل میں رکھنے کا وقت نہیں ہوتا اس لیے جو محسوس ہو وہ تحریر کرنے کے علاوہ مدمقابل کے منہ پر فورا فورا مار دینا چاہیے اس سے پہلے کہ پارا   دوبارہ اپنے نارمل درجے تک گر جائے جو ہمارے کیس میں نقطہ انجماد کے آس پاس ہے۔ 

خدایا، ہمیں ایک مرتبہ، صرف ایک مرتبہ کسی اچھی جگہ پہنچا دے۔ یہ ساری بکواس اپنے سسٹم سے مکمل طور پر نکال کر، پھینک کر اور آگ لگا کر جائیں گے۔ اور کام کرنے کے وقت پر اپنے بلاگ کا کندھا ڈھونڈنے کی عادت بھی۔