Saturday, September 28, 2013

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے


تو آخر کار ہم بھی ، اپنی توقعات کے برعکس، بر سرِ روزگار ہو ہی گئے۔

ہماری بیروزگاری کی داستان زیادہ طویل نہ سہی پر دردناک ضرور ہے۔ خدا کے فضل سے جب سے ہم صاحبِ کنڈل ہوئے ہیں، روپے پیسے کے محتاج نہیں رہے۔ پریشانی تھی تو اتنی کہ کہیں ہم گھر میں پڑے سوتے نہ رہ جائیں اور سمندِ وقت کہ ذرا بے نیاز واقع ہوا ہے، ہمیں چھوڑ کر آگے نہ نکل جائے۔
مفلسی ، چاہے اس سے انسان کو خود پریشانی نہ ہو، بلاشبہ سب بہار اور اعتبار کھوتی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے نکمے پن کے طعنے سننے کے لیے بڑا جگرا چاہیے۔ بے کار اور فارغ انسان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور ہر کوئی اس سے اپنا کام کرانا چاہتا ہے۔
پھر اندیشہ اس امر کا بھی تھا کہ کہیں پیہم پریکٹس کے باعث ہم ایسا کھانا نہ پکانا شروع کر دیں کہ یوسفی کے نزدیک تعلیم یافتہ خواتین کے گروہ سے خارج قرار پائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں۔ ویسے یوسفی صاحب سے ہم انتہائی مرعوب ہیں اور پچاس ساٹھ سال بعد ان جیسا لکھنے کے خواب بھی دیکھا کرتے ہیں مگر ایسے بے کار کلیشے اب اٹھا کر پھینک دینے چاہیں۔ اس موضوع پر بھی ایک مقالہ ادھار رہا۔
ہوا کچھ یوں کہ بے کاری کے ایک طویل دورانیے کے بعد ہم نے اچھے شعر پڑھ کر مسکرانا اور کھانے پر کھی کھی کرنا چھوڑ دیا۔ ہمارا رنگ زرد تر اور ہماری آہیں سرد تر ہوتی گئیں۔ ہم میں وہ ساری علامات دکھائی دینے لگیں جن کے نمودار ہونے کے بعد لوگ مع چاک گریبان صحرا کو نکل جاتے ہیں، اس حد تک کہ ہمارے گھر والے بھی کہ ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری مشرقیت سے کماحقہ واقف ہیں، ہماری طرف سے مشکوک ہونے لگے۔ قریب تھا کہ ان کا شک یقین میں بدلتا کہ ہم نے ایک درد آشنا کے مشورے پر اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور وقتی طور پر غالب کو چھوڑ کر پروین کی پیروی اختیار کی۔ بایں ہمہ کے اس کے ساتھ وہی کلاسک المیہ وابستہ ہے کہ ہمیں لفٹ تو مل جاتی ہے مگر وہاں سے نہیں جہاں سے ہم لینا چاہ رہے ہوتے ہیں-----ہمیں نوکری مل گئی ہے۔
اگرچہ یہ نوکری عارضی ہے، مگر بات یہ ہے کہ ہم خود کون سا پکے ہیں۔ آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ اپنے آج ہونے پر بھی ہمیں کچھ شک ہے، اور 'ہونے ' کے مفہوم پر بھی مگر فی الحال ہم ذرا خوش ہیں یعنی فلسفے کے موڈ میں نہیں۔
تنخواہ کے ساتھ پرکشش کا سابقہ استعمال کیا جاتا ہے مگر یہاں کل کشش دو ایسے افراد میں ہے جن کے بارے میں اقبال نے کہا ہے
از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ و ز بادہ دو پیمانہ
آزاد ترجمہ: دنیا کی محفل سے بلکہ حوروں اور جنت سے کہیں بڑھ کر ہیں، ایک سمجھدار دوست اور دو لبریز ساغر۔
ایسے دوستوں کا ساتھ ہو تو ٹھنڈا پانی بھی کافی ہوتا ہے۔ تنخواہ البتہ ہم ضرب دیے بغیر نہ بتا سکیں گے، ویسے بھی اس پر جتنی تُو ملتی جائے اتنی لگے تھوڑی کا اصول لاگو ہوا کرتا ہے۔
ہر کام کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسائل وابستہ ہوتے ہیں، سو وہ ادھر بھی ہیں۔ یہاں لینکس استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی الٹی ہو گئیں سب تدبیریں گنگنایا جا سکتا ہے ۔
امید ہے کہ ہماری آئندہ زندگی ایک ڈی سی زندگی ہو گی کہ پڑھنے کے ہم چور واقع ہوئے ہیں اور نوبیل عام طور پر بجلی والوں کو ملا نہیں کرتا۔ہمارا ارادہ ہے کہ آئندہ پانچ چھ سال میں، جب ہم کھانے والی تمام اشیا کھا چکیں گے، تو صحیح معنوں میں دنیا ترک کر دیں گے۔ اس کے بعد ایک لمبی سی کالی چادر اوڑھ کر کسی درخت کے نیچے جا بیٹھیں گے، سچ بولیں گے اور گزر اوقات کی خاطر لوگوں کے جوتے مرمت کیا کریں گے۔ گیان ملنے کا تو خیر زمانہ نہیں، ہمیں اگر اطمینانِ قلب ہاتھ آ جائے تو بہت ہے۔
اگر ہمیں اندازہ نہ ہوتا کہ یہاں کچھ عملی کام کرنا ہو گا تو ایک لحاظ سے خود کو آئن سٹائن کا ہم پلہ سمجھ سکتے تھے۔ اب ہم صرف اور صرف سائبر سپیس کے ایک اور منشی ہوں گے۔
تو لیجیے صاحبو، یہاں ہماری خود نوشت ایک اختتام کو پہنچتی ہے، جسے ہم نے کسی کے چیلنج کرنے پر غیرت کھا کر لکھنا شروع کیا تھا۔ معاشرے میں ہمارا ایک مقام ہے اور وہ بھی سنجیدہ سا، لہذا اسے ناقابلِ اشاعت سمجھیے۔ پھر ابھی اردو ادب پر اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم سے بے ادب اپنی خودنوشت لکھیں۔ ان تمام قارئین کے ہم شکر گزار ہیں جنھوں نے اسے پڑھنے کی زحمت کی۔ اگر کسی نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مسکرا دیا تو اس کا شکریہ ادا کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ایسے تمام کرم فرماؤں کو ہم اپنے دلِ مرحوم کا ایک ایک ٹکڑا ، کہ بیچارا بار بار ٹھکرائے جانے کے باعث چور چور ہو چکا ہے، فرداََ فرداََ پیش کرتے اگر کسی کام کا ہوتا تو۔ اب اپنے ایک نئے نئے پسندیدہ مصنف کی کتاب کے انتساب سے اٹھایا ہوا شعر آپ کی نذر کرتے ہیں:
تجھ کو خبر ہے، تیرے تبسم سے کیا ہوا؟
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اپڈیٹ: آئیڈیل اور پریکٹیکل میں کیا فرق ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہمارے حالاتِ زندگی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ یہ تاثرات تو ہمارے نوکری پر جانے سے قبل تھے۔ دو دن جانے اور چھوڑ کر بھاگ آنے کے بعد جو خیالات ہیں وہ پھر کبھی قلم بند کریں گے۔ اتنا سمجھ لیجیے کہ غالب کی پیروی کرنا اختیاری فیصلہ نہیں، لہذا اس سے فرار ناممکن ہے، چاہے آپ اس بندۂ خدا کے بالکل برعکس تیسرے درجے کے شعر ہی کیوں نہ کہتےہوں۔ موزارٹ کی بددماغی بھی سنا ہے کہ ہمارے آس پاس ہی کی چیز تھی۔ اب یہ کہاں لکھا ہے کہ بددماغ ہونے کے لیے کسی قابل ہونا شرط ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بنانے میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ورنہ ہم بھی کام کے انسان ہوتے، یعنی اگر ہم میں کوئی صلاحیت رکھ دی جاتی تو۔ نخرا تو ہم میں پورا پورا ہے۔
ایک تو خدا کسی کو خاتون نہ بنائے، اگر بنا ہی دے تو پھر ایسی کند ذہن، کاہل اور کم حوصلہ تو ہرگز نہ بنائے۔ مگر اس کی داستان تو اس قدر دکھی ہے کہ ہم کچھ عرصے تک لکھنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ہم احمق ضرور ہیں اور بے تحاشا ہیں مگر اس قسم کے ہرگز نہیں جیسا لوگ صرف ہماری شکل یا نام دیکھ کر گمان کیا کرتے ہیں۔
بے روزگاری بذاتِ خود اتنی بری شے نہیں، ، بدترین امر بار بار ٹھکرایا جانا ہے، اور وہ انتظار جسے بجا طور پر موت سے شدید تر کہا جاتا ہے۔ خدا ان لوگوں کو سمجھے جو ایک تو صبح سویرے کے انٹرویو کے لیے بلاوا بھیج دیتے ہیں اور پھر ایک عدد انکاری ای میل کرنے کی زحمت بھی نہیں گوارا کرتے۔
خیر اب اندازہ یہ ہے کہ اپنی ساتویں بیس میں اکتیسویں سالگرہ پر ہم بے روزگار ہی ہوں گے ۔ خود ہم نے تو اب پروا کرنا چھوڑ دیا ہے، اور لوگ البتہ یہ پڑھ کر عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ شاید ہمارا وہم ہی تھا کہ ہم پرابلم سالونگ اور الگورتھم ڈیزائنگ وغیرہ وغیرہ میں اچھے ہیں اور مائیکرو ویوز سے لے کر لوگوں کی گفتگو تک سب کچھ ڈی سائفر کر سکتے ہیں۔ اب فارغ رہ کر شاید پیانو بجانا ہی سیکھ لیں۔ کیا پتہ ہماری موزارٹ سے کوئی میوزیکل رشتہ داری نکل آئے۔