Thursday, November 14, 2013

وہ دن گئے کہ کہتی تھیں، نوکر نہیں ہوں میں

بہت سے ' فالس الارمز' کے بعد اس مرتبہ ہم نے خود اپنی توقعات اور کبھی کبھی ابھرنے والے شیطانی خیالات کے برعکس ایک ہی جگہ پر لگاتار تین ہفتے کام کیا جو ہمارے ماضی کو دیکھتے ہوئے ایک ریکارڈ ہے۔ فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہم فقیرانہ مزاج رکھتے ہیں اور کبھی بھی، کہیں سے بھی ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اپنے تئیں نہایت سنجیدہ اور عرفِ عام میں سڑیل ہونے کے باوجود دفتر جا کر معلوم ہوا کہ سنجیدگی کیا ہوتی ہے۔ یادش بخیر، وہاں پورے دن کی پیہم خاموشی سے وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب بچپن میں ہمیں لوگوں کے گھر جا کر تمیز اور رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں ضرورت سے زیادہ تہذیب سکھائی گئی ہے، لیکن بھئی یہ دفتر تو ہمارے لیے بھی بہت لمبی اداکاری ہے۔
قدرت نے ہماری ڈیمپنگ بہت کم کی ہے لہذا ہمیں سیٹل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ ہر نئی جگہ ہمیں پریشانی ہوتی ہے اور دفتر بھی اس سے مستثنی نہیں۔ وہاں ہماری جان پہچان صرف اپنے ہینڈ بیگ سے ہے۔ ہاں ایک اور خاتون بھی ہیں مگر وہ ایک انتہائی معقول خاتون ہیں اور ہنسنے والی باتوں میں ہمارا ان کا ذوق بے حد مختلف ہے۔ خیر یہ کیا کم ہے کہ خدا نے ہمیں ایک عدد لنچ کمپینئن عنایت فرمایا ہے اور لنچ کرنے کی جگہ بھی۔ لوگوں سے ملنے کے کون سا ہم شوقین ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اب ہمارے دوستوں کی فہرست پر مہر لگ چکی ہے۔ اب ہمیں پرانے والوں کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا، اور انھیں ہمیں مزید برداشت کرنا پڑے گا۔
 اس مرتبہ ہم اپنے پرانے تجربوں سے ذرا محتاط ہو چکے تھے۔ وہ جو جناب ڈارسی نے تخیل کی سبک پروازی کا طعنہ دیا تھا تو وہ مسئلہ ہمارے ساتھ بھی ہے اور جب ہمیں کوئی انٹرویو کے لیے بلاتا ہے تو ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ نوکری چھوڑ کر کب جائیں گے۔ مگر اس مرتبہ ایک تو ہماری ایک دوست نے ہمیں الٹی سیدھی باتیں کرنے سے منع کر دیا تھا اور لگے ہاتھوں الٹی سیدھی باتوں کی واضح تعریف بھی کر دی تھی، دوسری طرف ایک اور دوست نے خیر سے ہماری سفارش بھی کر دی تھی۔ کچھ انٹرویو لینے والے بھی نئے نئے لوگوں سے بدتمیزی کر کر کے تنگ آ چکے تھے۔ پھر اس سفارش کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ اگر یہ صاحبہ ہمارے ناول کا فلیپ لکھنے کا وعدہ کر لیں تو ممکن ہی نہیں کہ ہم کہ افسانے تک لکھنے کے قابل نہیں، کم از کم اس بر اعظم کے سب سے بڑے ناول نگار نہ کہلائیں۔ ان کے قریب آڑے ٹیڑھے ڈیجیٹل سرکٹس بھی ٹھیک ہو جایا کرتے ہیں، ناول کی صنف کیا شے ہے۔ خیر ان کا احسان کم از کم تک اس وقت تک ہمارے گلے میں رہے گا جب تک ہم اپنی فیلڈ تبدیل نہیں کرتے۔ اسے اتارنے کے لیے ہم وقتاََ فوقتاََ انھیں اس نوع کے شکی پیغامات بھیجتے رہتے ہیں:۔
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
البتہ ہماری پہلی دوست زیادہ باقاعدگی سے خیر خبر لیتی رہتی ہیں، لیکن چونکہ ان کی باتوں میں آئسکریم اور سردیوں کی دھوپ میں سیر کا ذکر ہوتا ہے اس لیے ہم ذرا اداس ہو جاتے ہیں۔۔
ویسے تو ہمیں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے کی اچھی بھلی عادت ہو چلی تھی مگر پھر ہمارا موبائل داغِ مفارقت دے گیا۔ ایک نئے، اچھے، چمکدار اور برق رفتار سمارٹ فون کے خواب نے ہمیں گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ بے روزگاری کا یہ تمام دورانیہ ہم نے آنلائن اور آف لائن شور مچاتے ہوئے گزارا۔ نہ ہم فارسی سیکھ پائے اور نہ ہی فرانسیسی ، یعنی ہماری جہالت کا کچھ علاج نہ ہو سکا۔ وہ عیش بھی گئے کہ ہم روزانہ نئی کتاب پڑھتے تھے۔ اب بہت سی جگہوں پر' کارِ جہاں دراز ہے' کی تختی لگانا پڑے گی۔
معاشی خود مختاری کے بارے میں ہمارے خیالات نہایت پختہ ہوتے تھے مگر دو دن رات گئے گھر لوٹنے پر انھوں نے یوٹرن لے لیا۔ بات یہ ہے کہ گھر کے کام کاج بے شک بہت سارے ہوتے ہیں اور بلاشبہ انھیں کرنے والے انتہائی بے کار سمجھے جاتے ہیں مگر اس میں بستر پر لمبے لیٹنے کا اچھا خاصا سکوپ ہوتا ہے۔ سالن چڑھایا اور آ کر لیٹ گئے۔ گھر کی صفائی کی اور آ کر لیٹ گئے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سونا تو ایک عام سی بات ہے۔ اور کس کے دفتر میں قیلولہ کرنے کی جگہ ہوتی ہے؟ گوگل میں سنتے ہیں کہ ہوتی ہے مگر اس کا دفتر ہمارے شہر سے ذرا دور ہے۔ رہی لوگوں کی رائے، تو اس کی کس کافر کو پروا ہے۔ اب ہم خود ہر وقت یہی راگ الاپتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے، ہمیں کون سا کوئی مجبوری لاحق ہے کہ یہ روز روز کی خواری کرنا ضرور ہو۔ جب جی چاہے گا، اپنی مرضی سے چھوڑ دیں گے۔ تاریخیں بھی ساتھ ساتھ دیا کرتے ہیں۔ اب اگر ان کا حال مرزا غالب کی نکالی ہوئی تواریخِ وفات کا سا ہو تو لوگوں کو ہماری غالب سے مماثلت دیکھنی چاہیے، بینگنوں کو یاد نہیں کرنا چاہیے۔
پھر ہمارا یہ بھی خیال تھا کہ لکھنے پڑھنے کے شوق روزگار کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہیں۔ اکثر تخلیق کار شکوہ کرتے ہیں کہ زمانہ ان کی قدر نہیں کرتا اور انھیں معاشی فکروں سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے ہنر پر توجہ دے سکیں۔ پہلے تو ہم اس نظریے کے کٹر مخالف تھے۔ معاشی طور پر کسی کا دست نگر ہونا ایک تو فیمنسٹ بنیادوں پر ہمیں برا لگتا ہے، دوسرا یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تلاشِ معاش ، کسی بھی شوق کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔
مگر اب ہم خود کچھ زیادہ لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ پڑھنے کو وقت نہیں ہوتا اور لکھنے کو ادھر ادھر سے کچھ نہیں ملتا۔ اور بکواس تو چھوڑیے، طنزیہ مضامین تک لکھنا مشکل ہیں کہ یہ دفتر اس قسم کی جگہ ہے جس کا مذاق بھی نہیں اڑایا جا سکتا۔ اس سے زیادہ غیر دلچسپ اور بور جگہ آج سے پہلے کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
پہلی مرتبہ علم ہو رہا ہے کہ ٹریفک ہمارے ہاں کا کتنا بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر اگر شام کے رش میں انسان پھنس جائے تو سمجھیے کہ اب آپ کے کئی گھنٹے سڑک پر کھڑے کھڑے گزریں گے۔ خدا جانے ٹیلی پورٹیشن کب ایجاد ہو گی۔ اندازہ ہے کہ کم از کم ہمارے ہاں زمین دوز ریلوے کا نظام آنے سے پہلے ہی ہو جائے گی۔ ویسے ڈر یہ ہے کہ کہیں بالائے زمین ریلوے کے ٹھیک ہونے سے پہلے ہی نہ ہو جائے۔ بہتری تو خیر کیا ہی آنی تھی مگر گزشتہ کچھ برسوں میں ٹرینوں کا رہا سہا نظام بھی پہلے سے زیادہ خستہ حال ہو گیا ہے۔ اس کا نوحہ پڑھتے ہوئے ہم جذباتی ہو جاتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا کچھ خوبصورت ترین حصہ ٹرینوں میں گزرا ہے۔ اگر اب ہم سوئٹزرلینڈ بھی سیر و تفریح کو چلے جائیں تو ویسی خوشی نہیں ہو سکتی۔
سوئٹزرلینڈ سے یاد آیا کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ نوکری شدہ (جو رفتہ رفتہ نوکری زدہ معلوم ہونے لگتی ہے) زندگی میں معمول یہ ہونا چاہیے کہ انسان گیارہ مہینے کام کرے اور ایک مہینے کی رخصت لے کر دنیا دیکھے۔ اگر ہم کام اپنی انتہائی پسند کا نہیں کر سکتے، مثلاََ کسی یونیورسٹی میں سٹرنگ تھیوری یا موازنۂ انیس و دبیر یا روسی مصنفین پر لیکچر دینا، تو چھٹیاں تو انتہائی پسندیدہ شکل میں گزار سکتے ہیں۔ اس پر ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے گیارہ مہینے کام تو کر کے دکھاؤ، پھر خیالی پلاؤ پکانا۔ خیالی پلاؤ کا طعنہ اتنا بھی غلط نہیں کیونکہ ہمیں اگلے محلے جانے کے لیے بھی گھر سے این او سی درکار ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ کم از کم ہمارے ادارے والے تو کم چھٹیاں دینے کے علاوہ سیروتفریح پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگاتے۔ خیر ہم ہمیشہ کی طرح اپنی امیدیں بلند اور توقعات کم رکھیں گے۔ ویسے بھی دس مہینے کام کرنے کے بعد ہمارا فیلڈ تبدیل کرنے کا ارادہ ہے۔
اب معمول یہ ہے کہ ہم صبح صبح بستر سے اٹھتے ہیں، دفتر اترتے ہیں اور ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے اپنی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں۔ شام کو گھر آ کر دوبارہ ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ شروع شروع میں تو ہم آنے جانے کے وقت سے بہت خائف ہوئے کہ چھٹیوں میں روزانہ بارہ گھنٹے سونے کی عادت ہو گئی تھی۔ ان دنوں تو ہمیں اخبار پڑھنے کا بھی وقت نہیں ملا اور اندازہ تک نہ ہوا کہ حادثے کیا کیا ہماری بے رخی سے ہو گئے۔ اب رفتہ رفتہ اس مشقت کی زندگی کا عادی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے ہمارا دفتر بری جگہ نہیں، وہاں گیمنگ کے لیے وقت بھی ہے اور اچھا سا گرافک کارڈ بھی۔ ہمارے جلد اٹھ آنے پر بھی کوئی معترض نہیں ہوتا مگر اس زمانے کا یونیورسٹی کے ان شب و روز سے کوئی مقابلہ نہیں جو دن کسی کی ہمقدمی میں بسر ہوئے۔
خیر یہ ہے کہ ہمیں کام ایسا ملا ہوا ہے کہ ہم اس کے غیر دلچسپ ہونے کا بہانہ نہیں کر سکتے۔ پھر بھی اپنے قصۂ غم سے زیادہ دراز پیپر اور اس سے بھی طویل کوڈ لگاتار پڑھنے کے لیے اچھا خاصا جگرا درکار ہوتا ہے، چاہے وہ سی میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہماری انتہائی ذاتی اور انتہائی متعصب رائے ہے کہ ڈیجیٹل سگنل پراسیسنگ محض کامن سینس کا مجموعہ ہے جسے لوگوں نے تھوڑی سی ریاضی اور فلو چارٹس چھڑک کر ایک الگ مضمون بنا چھوڑا ہے۔ ( اس میں اس کی تمام شاخیں مثلاََ امیج پراسیسنگ وغیرہ وغیرہ بھی شامل ہیں)۔ ہمارا تعصب اپنی جگہ مگر نئے نئے لوگوں کو ایک دم اتنا ڈھیر سارا کوڈ نہیں دینا چاہیے ایک ہی ساتھ پڑھنے کو۔
مقامِ شکر ہے کہ اب ہمیں اس میں کیڑے یعنی بگز نکالنے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ ادب کے میدان میں تو گھسنے نہیں دیا جاتا، اپنا تنقید کا شوق یہیں پورا کرنا پڑے گا۔ ویسے اتنا ضرور ہے کہ اب چونکہ ہماری معاشی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی ہے تو شاید ادب میں بھی ہماری کچھ شنوائی ہو جائے۔
تجربہ کار لوگوں کا کہنا ہے کہ تنخواہ ملنے سے سارے دکھ درد دور ہو جاتے ہیں، مگر یہ ایک تو ابھی تک ہمارے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اور پھر ذرا محدود ہے یعنی اس سے ہیلی کاپٹر یا فارم ہاؤس وغیرہ اتنی جلدی نہیں خریدے جا سکتے۔ کنڈل ہمارے پاس ہے اور بحمداللہ اور کسی شے کی ہمیں ضرورت نہیں۔ خیر ہے تو سہی مگر وہ اجناس فروختنی نہیں، مثلاََ ضمیر، ایک عدد سپائن اور کچھ گٹس۔
اب ہمارے لیے لکھنے کو کچھ رہ نہیں گیا، سوائے اس کے کہ ہمارے گنگنانے سے تنگ آ کر یہ لوگ ہمیں نکال باہر کریں یا ہم نوکری چھوڑ دیں۔ ایک دوست کا کہا درست معلوم ہوتا ہے کہ نوکری شدہ زندگی بے حد فلٹر ہو جاتی ہے اور اس میں سے ساری اونچ نیچ ختم ہو جاتی ہے۔ اب اگر ہم لکھنا بھی چاہیں تو اپنے آپ سے کم احمق اور نتیجتاََ کم دلچسپ کوئی موضوع چننا پڑے گا۔
روح تو خیر ہماری ازل سے قدیم تھی مگر اب ہڈیاں بھی بوڑھی ہو گئی ہیں، لہذٰا اب غیر کنڈکٹر افراد بھی ہمیں آنٹی کہہ کر پکار سکتے ہیں۔