Monday, July 25, 2016

قصہ ایک ٹریٹ کا

گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جب بقول شخصے  کتے والی ہونے کو ہو تو ہم اپنے آپ کو انسان سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہم لاکھ انجینئر سہی مگر اصل میں ایک خاتون اور صرف ایک خاتون ہیں۔
خدا گواہ ہے کہ اپنے حالیہ دفتر میں ، جو اس ذات باری کے فضل سے عنقریب ہی ہمارا سابقہ دفتر ہونے کو ہے، آ ٹپکنے سے پہلے ایک تو کیا، نصف خاتون بھی نہیں ہوتے تھے۔ گھر میں بے ترتیبی سے اپنا سامان پھیلا کر رکھنے سے لے کر سنہرے رنگ کو ہرا اور ہرے کو نیلا بتانے سے لے کر تمام مقامات آہ و فغاں پر ہماری تواضع اس قسم کے جملوں سے کی جاتی تھی جس میں ہماری صنف پر شک کا اظہار ہوتا تھا مثلا
کہیں سے پتہ نہیں چلتا کہ تم لڑکی ہو ( انچ انچ کے ناخن اور کیوں رکھے ہیں بھئی ہم نے)
لڑکیوں والی کوئی خوبی ہے تم میں
آج تک میں نے اتنی نکمی لڑکی نہیں دیکھی
فلاں کے فلاں کی فلاں کے فلاں کی بیٹی کتنی سلیقہ مند ہے تم نے وغیرہ وغیرہ
مگر ہم نے کبھی ان جملوں کو دل پر نہیں لیا کیونکہ یہ جملے اول تو دل پر لینے والے ہیں نہیں اور دوئم ہمارا دل ایسا دل نہیں جس پر کچھ لیے جا سکے اور سوئم اماں کی باتیں دل پر کون احمق لیتا ہے۔ تو ہماری یونہی عرف عام میں لڑکوں والی زندگی گزرتی رہی، گزرتی رہی گزرتی رہی یہاں تک کہ ہمیں  اپنے دفتر سے ( جو اس وقت ہمارا ہونے والا دفتر تھا ) ای میل آ گئی کہ مسٹر تشریف رکھیے۔ مسٹر یوں کہ انھوں نے بنی بنائی ای میل کو تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی۔ کھٹک تو ہمیں یہیں جانا چاہیے تھا سٹیٹس کو کی اس قدر اندھا دھند حمایت پر لیکن ہم اس وقت بہت ہی بیوقوف بلکہ فقط بے وقوف ہوا کرتے تھے۔
یہاں اختلافی نوٹ درج کرتے چلیں کہ لڑکوں والی زندگی ہم صرف عرف عام کی رعایت سے کہہ رہے ہیں ورنہ ہمارے ذاتی خیال میں ہر انسان کو اپنے رنگ نسل  صنف اور عقیدے سے قطع نظر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔
بس بھئی، پھر ہمارا دفتر ہمیں ٹکرا گیا اور ہم اسے۔ یہاں ہم پر خاتون ہونے کا ایسا کوئی پکا اور آل اینکمپاسنگ لیبل لگایا گیا کہ آج تک اس کی گوند اتارتے پھرتے ہیں۔
بارے دفتر کے کچھ بیاں ہو جائے، اس سے پہلے کہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ ہم کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو خالصتا خواتین کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگر ایسا ہوتا اور ہم کسی کھڑوس بابے کی سیکریٹیری ہوتے یا کوئی سکول ٹیچر یا کوئی فیشن ڈیزائنر یا پھر مدر آف آل ہاررز، کوئی ماڈل جن کے بینک اکاونٹس، خال و خد نیز قد و  قامت کو ذہن میں رکھ کر ہر سال لان کی نئی نئی کلیکشنز لانچ کی جاتی ہیں تو مسئلہ سمجھ میں بھی آتا کہ ہم میں اپنے کام کے لیے درکار خصوصیات کا فقدان ہے اور ایسے میں ہم اپنی روز و شب کی فرومائیگی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ ہو رہتے۔
لیکن۔۔۔۔ایسا نہیں ہے۔
ہے کچھ ایسا کہ ہم اپنی دن کی نوکری میں پی سی بی ڈیزائن کرتے ہیں، ایف پی جی اے کے ڈیزائنز کی ٹیسٹنگ کرتے ہیں اور پاور سپلائی کے کرنٹ کے کافی یا ناکافی ہونے  اور وولٹیج لیول کے مختلف سٹینڈرڈز کی باہم مطابقت پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں۔  آج ہی ہمیں سنکرونس اور اے سنکرونس ریسیٹس کے موازنے پر ایک لیکچر ملا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انٹل والے اپنی بسوں میں اے سنکرونس ریسیٹس استعمال کرتے ہیں تو ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے۔ لیکچر دینے والے صاحب چونکہ ہمارے دفتر کے واحد انسان ہیں تو ہم نے یہود و نصاری کی اندھا دھند پیروی  کی نصیحت پر اعتراض نہیں کیا۔
سی اور ویری لاگ سے ہماری جان پہچان کا علم رکھنے والوں کو جب ہماری  اردو کی استعداد پر شک ہوتا ہے تو ہم سے رہا نہیں جاتا۔ انگریزی کا تو ذکر ہم کرتے ہی نہیں جس میں ہم نے  جی آر ای میں ریاضی سے بھی زیادہ نمبر مارے یہاں تک کہ ہمیں اپنے انجینئر ہونے پر شک ہونے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پناہ ملے گی تو صرف فرانسیسی  کے دامن میں اور تب جب ہم پکے فرینکو فائلز کی طرح اپنی زبان کو کسی اور زبان میں جنبش دینے سے قطعا انکار کر دیں۔
استعداد پر شک سے مراد یہ نہیں کہ لوگ ہمارے میر کے حوالوں پر اعتراض کرتے ہیں یا غالب کی تشریح پر۔ غلطی پکڑنا تو ایک طرف، ہمارے اردگرد  موجود لوگ اس نوع کے ہیں کہ ان کے سامنے میر و غالب کا نام لینا بھی شدید بے ادبی ہے۔  مقصود فقط اتنا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم چھوٹے چھوٹے جملے بولنے سے قاصر ہیں ، اس نوعیت کے جو ابتدائی کچی پکی جماعتوں کے قاعدوں میں سکھائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکریہ، کوئی بات نہیں، یہ تو ہمارا فرض تھا، جی میں جا رہی ہوں،  خدا آپ کو بھی خوش رکھے وغیرہ وغیرہ۔
 پیسے ضائع کرنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں مگر ہم کہ ایک اوور آل نحوست کے مارے ہوئے ہیں، پچھلے ہفتے ایک بھورا نوٹ کہیں گرا دیا۔  مجال ہے جو اس کا دل میں رتی بھر بھی ملال آیا ہو۔ ہاں اس نوٹ پر ضرور افسوس ہوتا ہے جس کی آج  ایک نام نہاد ٹریٹ ضد کر کے دی۔
قصہ اس ٹریٹ کا یوں ہے کہ ہم ایک کمپیوٹرائزاڈ موٹر ورک شاپ کے سامنے سے گزرتے گزرتے اس سے ملتے جلتے انیشئلز والی یونیورسٹی کو دل دے بیٹھے۔ جب خدا نے اس یونیورسٹی والوں کے دل میں رحم ڈال دیا اور انھوں نے اردو غزل کی روایت کے برعکس ہمیں قبولیت کا پروانہ بھجوایا تو ہمارے دانت چوبیس گھنٹے باہر رہنے لگے ۔ اس قدر کہ ہمارے گھر والے اگر عام گھر والے ہوتے تو انھیں اس مرتبہ تو وہ شک ضرور ہو جاتا جو تین سال قبل ہمارے ایک شہری مجنوں بننے پر بھی نہیں ہوا تھا ۔   پھر ہمیں کم از کم کسی کتے نے تو ضرور کاٹا ہو گا جو ہمارے جی میں آ سمائی کہ ہم اپنی خوشی میں اوروں کو بھی شریک کریں، اور پیسے خرچ کر کے۔
لیکن یہ پلان ابھی فرد فرد تھا کہ ہمیں ایک بفر کے ذریعے  خالصتا بی جمالو انداز میں طعنہ مارا گیا کہ ہم نے آج تک کوئی ٹریٹ نہیں دی۔ اب سیدھا سادا جواب اس کا یہ بنتا تھا کہ بندہ خدا، آپ نے مانگی نہیں تو ہم نے دی نہیں لیکن ہم سیدھی بات اونچی آواز میں کہاں کر سکتے ہیں۔ فورا تیار ہو گئے  حالانکہ ہمیں دبے الفاظ میں سمجھایا بھی گیا کہ زیادہ پیسے ضائع مت کیجیے۔
لیکن ہم نے آج تک کسی کی ڈھنگ کی بات مانی نہیں اور اس روایت کو ہم توڑنا نہیں چاہتے تھے سو کہا تو سن کے اڑا دیا۔
اس پر بھی ہم نے وضاحتیں دیں کہ ہم پہلے سے ہی  ٹریٹ دینا چاہ رہے تھے وغیرہ وغیرہ حالانکہ اس سے کہیں بہتر تھا کہ ہم اپنی میز سے مٹی جھاڑ لیتے۔ کمیونیکشن ، الا اس کہ کہ طنز پر مشتمل ہو، نہایت بے معنی اور بے مصرف شے ہے اور سامع و مقرر ہر دو کا وقت اور انرجی ضائع کرنے اور کائنات کی انٹروپی میں اضافہ کرنے کے علاوہ کسی کام نہیں آتی۔ یہ خیال ہمارا دن بہ دن راسخ ہوتا چلا جا رہا ہے حالانکہ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک خدا کا بندہ کہ شاید صاف صاف باتوں کا عادی نہیں، ہمارے فلسفے کو ایسے دل پر لے گیا جیسے ہم نے اس کے سر پر بالوں کی ڈسٹریبیوشن پر تنقید کر دی ہو۔  پھر وضاحتیں تو کمیونیکشن کے نچلے ترین قدمچے پر آتی ہیں اور اب تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جو لوگ وضاحتیں دینے پر یقین رکھتے ہیں وہ گھٹیا پن کی حد تک بے وقوف واقع ہوتے ہیں اور انھیں اپنے آپ کو انسانوں کے بجائے حشرات الارض میں شمار کرنا چاہیے۔
نوٹ ٹو سیلف: اگلی مرتبہ جب ہم کہیں بھی، کبھی بھی، کسی کو بھی وضاحت دینے لگیں تو اس سے پہلے اپنے آپ کو گولی مار لینی چاہیے۔
خیر۔۔۔ہم نے ٹریٹ دی۔
اور اس پر تئیس میں سے کل چار لوگوں نے ہمیں شکریے کا لفظ دے کر مارا۔
ایک ہماری دوست جن کے شکریے کا محرک  ہم نے آئس کریم  شیک کے بجائے ان کی جاںخلاصی کو قرار دیا۔
ایک ہماری جاننے والی جنھیں ہمارے پروگرام کا آج ہی علم ہوا۔
نیز دو لڑکے جن کا شکریہ۔۔ویٹ فار اٹ۔۔ہم نے خود پہلے ادا کیا تھا لاجسٹکس میں مدد کرنے کے باعث۔
سچ یہ ہے کہ ہم ہرگز یہ نہیں چاہتے تھے کہ چند اونسوں کے بدلے لوگ ہمیں دنیا کی حکمرانی دے ڈالیں۔ نہ ہی ہمارے کسی کونے کھدرے میں یہ تمنا تھی کہ ایک ایک گلاس آئسکریم شیک کے عوض ایک ایک گلاب کی کلی لیے قطار یں بندھ جائیں۔ ہاں البتہ اگر مل کر لوگ ہمیں ایک عدد گلدستہ غیر پلاسٹک کا  دے ڈالیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو۔ لیکن انسان کی آرزووں کی حد بھلا کہاں واقع ہوئی ہے۔
چلیے شکریے جیسے تکلفات سے تو ہم یوں بھی گھبراتے ہیں مگر اگر اتنے لوگوں میں سے ایک بندہ، اگر ایک بندہ بھی ہمیں فقط اتنا ایکنولج کر دیتا کہ کدھر دفع ہو رہی ہیں آپ تو رائیگاں جانے  کے احساس کی اس قدر گہری دھند ہمیں جولائی کی شام میں نہ لپیٹے ہوتی۔
بات ہے ہی اتنی رسوائی کی کہ اتنے ڈھیر سارے لوگوں میں سے کسی ایک نے بھی ہمیں ایک عدد فریز کے قابل بھی نہیں سمجھا اور ہم اپنے تئیں بنے پھرتے ہیں کوئی تئیس مار خان۔  فیمنزم میں ایک اصول کے علاوہ ہمیں کبھی زیادہ دلچسپی نہیں رہی لیکن اب اپنے ساتھ کے لوگوں کا رویہ دیکھ  کر پیٹریارکی ، پبلک سپیس پر قبضہ جمانے اور   ڈسکورس سے عورتوں کی آواز  میوٹ کرنے  کے حربوں پر ایمان ہو چلا ہے۔ ان ڈائریکٹ طعنہ البتہ دوبارہ مل گیا اور اب سوچتے ہیں کہ ان آدمیوں سے ہم نہ تو طعنے بازی میں مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ سوشل آکورڈنیس میں۔
خدا نے اگر ہمارا ساتھ دیا جیسا کہ وہ مجبور و مقہور طبقات کا دیا کرتا ہے تو ہم ہارڈوئیر کے ساتھ ساتھ پاکستانی ہارڈوئیر ڈیزائنرز پر بھی پرچے لکھا کریں گے۔ یہ ضرور ہے کہ اس طرح کی سوچ کے ساتھ مالوالہ خاتون کی کامیابی پر لوگوں کا اچھلنا فہم سے باہر ہے کیونکہ انہوں نے اس معاشرے سے تعلق رکھنے کے باعث نہیں بلکہ اس سے دور رہ کر ترقی کی ہے۔