Thursday, July 4, 2013

من کہ ایک جاہل اور فارغ گریجویٹ


کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے۔
ایک فہرست جس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے، ایک سپروائزر اور ایک کو سپر وائزر کے اضافے سے طویل تر ہو گئی ہے۔ سچ ہے کہ ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ جب ہمارے سپروائزر ، جن پر ہم اچھا خاصا بھروسا کرتے تھے، جان گئے کہ ہمارے پروجیکٹ کو اوپن ہاؤس میں کسی قسم کی لفٹ نہیں مل رہی تو وہ بھی ہم سے نظریں چرا چرا کر گزرنے لگے۔
بنیادی کہانی تو یہی ہے کہ چار چھ مہینے اپنا چھوٹا سا دماغ کھپانے کے بعد اوپن ہاؤس بڑا شدید دل شکن تجربہ رہا۔ ایک دو افراد نے جب لفٹ کرائی بھی تو ان کا مقصد صرف اپنے تئیں ہمیں ہماری اوقات یاد دلانا تھا۔ایک صاحب نے موسم سے زیادہ سڑا ہوا منہ بنا کر ہمیں' میڈم، تو کیا آپ کا کام صرف۔۔۔' کہا کہ ہمیں بائیں ہاتھ سے اپنا دایاں ہاتھ پکڑتے ہوئے خود کو ان کی بزرگی اور جائے وقوع کی نامعقولیت کا احساس شدومد سے دلانا پڑا۔ متوازی کائناتوں کا نظریہ ذرا غیر سائنسی سہی مگر ہم صرف اسی لیے اس کے قائل ہیں کہ ایسے مواقع پر ہم گوشِ تصور سے دور دراز کسی کائنات میں پڑنے والی چماٹ کی گونج سن لیا کرتے ہیں۔ ویسے زیادہ تر وقت تو ہم نے اپنا وزن ایک ٹانگ سے دوسری اور دوسری سے پہلی پر منتقل کرتے گزارا۔ ایک بیچاری مروت کی ماری گروپ ممبر کہ ہمارا پان سگریٹ بوائے تھیں، ہم سے کہیں زیادہ متاثر ہوئیں کہ ہم نے چلچلاتی دھوپ میں ان کی اچھی خاصی پریڈ کروائی۔پان سگریٹ تو اس خرابے میں کیا ملنے تھے، ان کا زیادہ تر وقت پانی اور سامان ڈھوتے گزرا۔ خیر یہ ہے کہ انھیں خدا کے فضل سے کسی لفٹ کی قطعاََ ضرورت نہ تھی۔
ذرا عجیب بات ہے پر سچ یہی ہے کہ اپنا حالِ زار قلم بند کرتے کرتے خود سے مزید ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پراجیکٹ سے ہم نے اعلانِ برات ابھی کوئی دس منٹ قبل کر دیا ہے۔ اگر کسی شخص یا شے کو اس پر کسی قسم کا اعتراض ہے تو وہ اپنی پسند کا ایک کھڈا ڈھونڈے اور ا س میں آرام کرے۔ اگر اس میں گندا پانی موجود ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ اپنے سپروائزر اور پھر کو سپروائزر سے بد تمیزی کرنا ہے۔
اب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم رسمی طریقۂ تعلیم میں پڑنے یا پڑھنے کے باعث یا باوصف کس قدر جاہل رہ گئے ہیں۔ انجئینر ہمیں کوئی مانتا نہیں، بشمول ہمارے۔ تکنیکی علم ہمارا کسی الیکٹریشن سے بھی کم ہے۔ اور پھر اس سسٹم میں پڑنے کی وجہ سے ہم ہزاروں دیگر دلچسپ چیزیں پڑھنے سے رہ گئے ہیں اور نتیجتاََ دنیا کے بارے میں بالکل کورے ہیں۔ انسانوں سے بات کرنا ہمیں آتا نہیں اور جمالیاتی حس تو ہم سے زیادہ کسی گوبھی کے پھول میں ہو گی۔ اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ ہمیں سکھانے کی ان گنت مرتبہ کوشش کی گئی مگر وہ ہم ہی کیا جو کچھ سیکھ کر دیں۔
اگر سافٹ یا ہارڈ، کسی قسم کے سکلز میں کورے پن کا مقابلہ ہو تو ہم بے حد کامیاب ٹھہریں گے۔
فراغت کے لیے تو ہم نے کچھ مشاغل ڈھونڈے ہوئے ہیں، جن میں آم، حافظ, سندھ اور خواب سرِ فہرست ہیں۔ جہالت البتہ پریشان کن امر ہے اور ہم اس مرتبہ سنجیدگی سے اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھیے اب کے غم سے جی میرا، نہ بچے گا، ، بچے گا، کیا ہو گا۔
ستمبر کی اپڈیٹ: ایک سے زیادہ افراد نے اقرار کیا کہ وہ بدقسمتی سے، جو غالباََِ ان کی اپنی تھی، ہمارا پراجیکٹ نہ دیکھ پائے۔ دیر آید درست آید کے تحت ہم ان کی معذرت قبول کرتے ہیں۔

3 comments:

  1. یے بات آپ نے بالکل ٹھیک کردی جناب! خود سے ہمدردی بھی ہوتی ہے، ترس بھی آتا ہے اور غصہ بھی۔
    خیر آپ امید رکھیں۔ یہی سوچ لیجیے کہ مالک نے کچھ بڑا اور بہتر رکھا ہوا ہے آپکے لیے۔
    آج پہلی دفعہ لکھ رہے ہیں ہم اس طرح۔ کوئی اونچ نیچ ہوئی ہو تو نظر انداز فرمایئے گا۔

    ReplyDelete
  2. یقین نہیں آتا ایک عورت اتنا خوبصورت لکھ سکتی ہے۔ اور وہ بھی اس زمانے میں جب لوگوں کو اردو کا املا تک بھولنے لگا ہے۔
    داد قبول فرمائیے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بھئی عورتوں کو اگر موقع دیا جائے تو وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں،۔ اور روایتی دانش کے مطابق خواتین اور خوبصورتی کے درمیان موجود کوریلیشن پر بحث پھر کبھی سہی۔
      تشریف لانے کا شکریہ اور پڑھنے کا مزید شکریہ، کوشش یہی رہتی ہے کہ میری تحریر میں اور کچھ ہو یا نہ ہو، قواعد کی پابندی ضرور ہو۔

      Delete