Friday, October 7, 2016

ہے دوڑتا اشہب زمانہ

چیزیں بدلتی رہتی ہیں اور اس کے باوجود تبدیل نہیں ہوتیں۔ یہ اوکسیمورن یا مجموعہ اضداد تو ہے ہی اقبال اور ہماری طرح مگر اس سے بڑھ کر المیہ ہے۔کم از کم ہمیں تو یہی لگتا ہے۔ لیکن خیر، ارتقا شاید اسی کا نام ہے اور ممکن ہے کہ ایک دن کبھی ہم صحیح معنوں میں تبدیل ہو جائیں۔
تبدیل تو ہم ہو گئے ہیں اور بہت سے معاملات میں اور اس قدر کہ اب  محاورتا نہیں بلکہ حقیقتا  آئینے میں خود کو دیکھتے ہیں تو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ ہم کہ تین وقت اماں کے ہاتھ کا خوب سارا کھانا کھایا کرتے تھے، اب دن میں ایک مرتبہ کچھ پکاتے کھاتے ہیں اور وہ بھی ناغے کے ساتھ۔دیگر امور زندگی کی طرح ہم کھانا پکانے میں بھی کچھ اینٹی ٹیلنٹ رکھتے ہیں یعنی پکاتے ہیں اور انتہائی بکواس۔ ایسے میں وزن میں دس کے ملٹی پل کا فرق پڑنا ایک قدرتی امر ہے۔یوں بھی خود کھانا  پکانے میں ہماری انرجی خرچ زیادہ ہو  
جاتی ہے تو کھانے کا خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ہمیں کھانا پکانے کے لیے کسی انسان یا روبوٹ کی ضرورت ہے مگر ظاہر ہے کہ ہم ہر دو مخلوق افورڈ کرنے سے قاصر ہیں۔
ایک فرق یہ بھی پڑا ہے کہ پہلے لوگ ہمیں پانچ چھ سال کی پکی دوستی کے بعد کک آوٹ کرتے تھے تو اب امریکہ کی سبک رو زندگی میں یہ دورانیہ سمٹ کے چار ہفتے پر محیط ہو گیا ہے۔ خیر ہم بھی اس مرتبہ شاید ڈھائی گھنٹے میں ہی ریکور کر گئے، تین سال  کے مقابلے میں۔ اگر ہمارے ارتقا کا ڈیری ویٹیو زیادہ ہو تو شاید ہم اس پتھردل دنیا میں سروائیو کر پائیں جہاں لوگ دل میں زہر لیے پھرتے ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ ہم کہ فراز سے بھی زیادہ سادہ دل واقع ہوئے ہیں ، ہر ہاتھ بڑھانے والے کو دوست سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ تلخ حقیقت اب ہم پر واضح ہوئی ہے کہ اگر ہماری کسی سے ہود بھائی سے لے کر بھٹوز تک اور غالب سے لے کر کارل مارکس تک  سیر حاصل گفتگو ہو تو اس کا مطلب ہرگز، ہرگز اور ہرگز یہ نہیں کہ اگلا ہمارا دوست ہے یا خیر خواہ ہے یا اچھا انسان ہے۔ پھر اگر کوئی آج کے دن کے لیے  دوست بن  ہی گیا ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ کل بھی دوست رہے گا۔ ابھی آخری کیس میں تو شاید فریق ثانی نے ایک ایک مہینے کا کوٹہ رکھنے کی عادت اپنائی ہوئی ہو۔ ویسے  یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اپنے ازلی غبی پن کے باعث کک آوٹ کر دیئے گئے ہوں جسے پہچاننے والے پہچان جاتے ہیں۔
ہاں ہمارے ارتقا کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ سابقہ کیس کے برعکس اس مرتبہ ہم نے آفنڈنگ پارٹی کے لیے اپنے دل سے نرم تو کیا، سخت گوشے بھی ختم کر دیے ایک دو دن ایٹ رینڈم گالیاں دینے کے بعد۔ عمر بڑھنے سے ہم پر یہ راز کھلا ہے کہ روایتی دانائی کے برعکس ہم مورٹلز  کے دل اور زندگی میں جگہ بہت کم ہوتی ہے لہذا ان میں فقط ان لوگوں کو رکھنا چاہیے جو اس قابل ہوں۔ داغ کے تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی میں بڑی تلخ سچائی پنہاں ہے کہ انسان انتہائی ریپلیس ایبل ہوا کرتے ہیں۔   اب ایسے میں کوئی ہارورڈ میٹیریل ہے تو ہوا کرے، ہمارے پاس جگہ نہیں ہے۔ ہارورڈ والے یوں بھی نمبر اور سفارشی خطوط دیکھ کر رکھ لیتے ہیں، انسان کا کردار تھوڑا ہی دیکھتے ہیں ٹھوک بجا کر۔ ہم ہارورڈ نہیں جا سکتے تو کیا ہوا، ہمیں تو ایک درخت کا سایہ بہت ہے۔ لیکن دنیا داری کے مارے ہوئے لوگ ایسے بے نیاز تھوڑا ہی ہو سکتے ہیں۔
دنیا کی پروا تو ہمارے پرانے جوتے بھی نہیں کرتے اور اس سپرٹ کے لیے ریاست ہائے متحدہ سے بہتر کون سی جگہ ہو سکتی ہے۔ یہاں ہم  انتہائی رنگین  مگر شکن  الود ملبوسات میں پھرا کرتے ہیں، کوئی کچھ کہہ کر تو دکھائے ہمیں۔ ہاں نوکری مانگنے کے لیے شاید ذرا تمیز سے جانا پڑے۔ اور ہاں بھئی، دنیا کی اگنور لسٹ پر ہم ہنوز ہیں لیکن اب اس بارے رونا دھونا نہیں مچاتے۔ رونا دھونا تو اب ہم کسی بارے میں بھی نہیں مچاتے کہ اماں کا گھٹنا میسر نہیں اور فون پر فقط جی جی اماں میں خوش ہوں کی تسلیاں دی جا سکتی ہیں۔  تھوڑا شوق ہو گیا ہے ہمیں دنیا سے لڑنے کا، اب خدا جانے کیا بنے نبمر ایک ہمارا اور نمبر دو، دنیا کا۔ مفت کا کھانا کھانے کی بھی ہمیں عادت پڑ گئی ہے کہ یونیورسٹی میں ہر وقت سیمینار اور کانفرنسیں چلتی رہتی ہیں۔
لیکن اس سب کے باوجود پرچے ہمارے ہنوز بےکار بلکہ انتہائی بےکار ہوتے ہیں۔ ہوا کریں۔ مائی شو ڈزنٹ کئیر۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں پرچوں اور سابقہ دوستوں کے علاوہ نیز یہ کہ ہے دوڑتا اشہب زمانہ اس قدر تیزی سے کہ رات کو سوتے  میں کبھی آنکھ کھل جائے تو ہم حساب کتاب لگاتے ہیں اور  بے طرح ڈر جاتے ہیں۔ دن کی روشنی میں ایسے خیالات ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ٹالے جا سکتے ہیں لیکن رات میں بہت سے شعوری اور غیر شعوری پردے اٹھ جاتے ہیں ذہن سے۔

2 comments:

  1. یہ علم تو تھا کہ حقیقت کی ٹھوکریں بڑے بڑے طلسم توڑ دیتی ہیں۔ یہ گمان یا بدگمانی نہیں تھی کہ اس کی زد میں آپ کا جادو اثر اسلوب بھی آتا ہو گا۔
    لوگ تو چھ ارب ہیں دنیا میں۔ آتے جاتے رہتے ہیں۔ خبر لیجیے دہن بگڑا!

    ReplyDelete
  2. خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوں گئیں.
    افسوس ہے کہ اسلوب آپ کے معیار پر پورا نہیں اترا. کیا کیا جا سکتا ہے.
    لوگ تو بلاشبہ ہیں لیکن اپنی زبان کا مسئلہ, جس کی طرف حالی نے اشارہ کیا تھا, بڑا ٹیڑھا ہے. خیر.
    شکریہ تشریف آوری کا
    :)

    ReplyDelete