Tuesday, November 21, 2017

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

زندگی بڑی عجیب شے ہے اور حیرت یہ ہے کہ انسان اس پر حیران ہونے سے بھی باز نہیں آتا۔
خود ہم نے بھی ایک عمر گنوا کر کچھ سیکھا ہے تو یہی سیکھا ہے کہ بہت کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے مگر بہت کچھ دراصل وہی رہتا ہے۔ شاید آج کل ہمارا سوال یہی ہے کہ انسان تبدیل ہوتا بھی ہے یا نہیں یا یہ سب فہم کا دھوکا ہوتا ہے اور ذرا سی تیز ہوا چلنے پر تجربے کا پردا اڑ جاتا ہے۔
یاسیت پرستی اور قنوطیت سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے اور وہ ہمیں رہ رہ کر سمجھاتی ہے کہ دنیا میں کچھ بھی کرنے کا کچھ فائدہ نہیں اور زندگی کے اختتام پر انسان کے ہاتھ میں خسارے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا اور یہی یہاں کا نظام ہے۔  ہم ناکامیوں کے موضوع پر ایک مدلل تقریر پہلے کر چکے ہیں لہذا یہاں خلاصہ بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔ ہمارا ایمان ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ ہم ناکامیاں سمیٹا کرتے ہیں، اور کچھ نہیں۔
کبھی کبھی ہم غور کرنے کی کوشش کیا کرتے ہیں کہ کہیں کوئی غایت دکھائی دے مگر نہیں دکھائی دیتی۔ ہماری فہم کا ضرور کچھ قصور ہو گا اس میں مگر ہم کبھی کبھی بے طرح جھنجلا اٹھتے ہیں اس بات پر کہ ہمیں محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ ہمیں کبھی کچھ ملتا نہیں، نہ تو بقدر آرزو اور نہ ہماری پسند کے وقت پر۔  سچ ہے کہ زندگی میں انتظار کے علاوہ کوئی خاص کام نہیں ہمیں اور قسمت نے ہمیشہ اسی پر لگائے رکھا ہے۔ کچھ اس میں مسئلہ اس فلسفے کا بھی ہے کہ ہمیں اول تو کچھ پسند نہیں آتا اور اگر اس پر ہمارا لیبل لگ جائے پھر تو ہم اسے صرف ہائلی کمپریسڈ کچرا ہی کہا کرتے ہیں۔
لیکن اپنے ٹیڑھے پن سے آگاہ ہونے کے باوجود ہم بری طرح بیزار ہیں آج کل کی تاریخوں میں اور وجہ اس کی یہی جو ہم بیان کر چکے ہیں، یعنی ہمیں کبھی کچھ ملتا نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اگر کبھی کچھ مل ہی جائے تو ہم اس کے معیار پر مشکوک ہو جاتے ہیں اور پھر اپنا سنگ میل اٹھا کر ایکسپونینشئل فاصلے پر نصب کر دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم اس بات پر رونا دھونا مچاتے تھے کہ ہم اپنی انجئنئرنگ کی  کلاس میں احمق طالب علم ہیں اور سرکٹس ہماری سمجھ میں نہیں آتے اور تیز بچے سمجھ لیتے ہیں۔ پھر گریجوئیٹ ہونے کے بعد ہمیں یہ تکلیف تھی کہ کوئی ہمیں نوکری کو نہیں پوچھتا اور سچ میں اس وقت نہ تو کوئی ہمیں جانتا تھا اور نہ ہم کسی کو۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حالات واقعی میں خراب تھے اور ہماری ایک دوست کو خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کہ جن کی سفارش کے مارے ہمارے سابقہ دفتر والوں نے ہمیں جگہ دی۔ یہاں اور کچھ نہیں تو متعلقہ جوتوں کے ساتھ ہمارا شمار شمشاد قدوں میں ہو ہی جاتا تھا۔
ہمارے طرہ پر پیچ و خم کے پیچ و خم نکلے یہاں پٹسبرگ پہنچ کر اور یہاں ہم پہلے سسٹمز میں نکمے رہے، پھر مشین لرننگ میں اور پھر ٹھک کر کے سی ایس کی تھیوری میں آ گرے اور اب تکلیف یہ ہے کہ ہم وڈرف جیسے کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔
یہاں بیان کرتے چلیں کہ وڈرف ہماری زندگی کی گنتی کی انسپریشینز میں سے ایک ہے اور اس میں تھوڑا بہت حصہ اس بات کا بھی ہے کہ کل اس نے صاف صاف ایک کام پر بوگًس ہونے کا الزام لگایا جس سے ہم چھ مہینے سے سر مار رہے ہیں۔
وڈرف کی طرح تو شاید ہم ساری زندگی گزار کر بھی نہ بن سکیں لیکن ابھی ہم کچھ تو خواہ مخواہ ہی موازنہ کرتے ہیں اس سے اپنا۔ وہ دس سال تو ایم آئی ٹی کی سی سیل لیب میں رہ کر نکلا ہے اور ہم ہنوز وہاں کی راہداریوں میں جھاڑو لگانے کے قابل نہیں۔ پھر ہمیں پہلے تو اپنی کلاس کے چھوٹے بچوں سے موازنہ کرنا چاہیے اپنا جن کو اوسطا بھی ہم سے دس گنا سمجھ ہوتی ہے لینئیر الجبرا کی۔ 
تو اب تو ہم یہ اقرار کر ہی لیں کہ لینئیر الجبرا کے باعث آج کل ہماری زندگی میں انتظار ہی انتظار ہے، یعنی اس میں مہارت کا۔ معاملہ وہی ہے جس کی بندی اردو غزل میں کی جاتی ہے، یعنی کہ ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار۔ ہمیں الجبرا پسند ہے اور کسی زمانے میں اسے ہم پسند ہوا کرتے تھے مگر اب نہیں اور ہمارے بیشتر غم اسی کی وجہ سے تھے پچھلے ہفتے تک جب تک کہ ہم نے شیشے میں اپنی زلفوں کا بغور معائنہ نہیں کیا تھا اور جس کا رنج تو ہم فی الحال بیان کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔
شاید، شاید ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کبھی کہیں ٹک کر نہیں بیٹھتے اور ایک معاملے پر توجہ نہیں دیتے۔ میر کی طرح بننے کی کوشش بھی کرے انسان تو اس میں کچھ تو کام کرنا پڑتا ہے اور کام سے ہماری ابھی تک جان جاتی ہے۔ کچھ بھی سیکھنے کے لیے اس کو توجہ دینی ہوتی ہے اور الگوردمز میں شاید ہم میں کچھ اینٹی ٹیلینٹ ہو مگر اور کچھ معاملات تو نپٹا ہی سکتے ہیں ہم۔
خلاصہ یہ کہ زندگی بڑی ہی احمق شے ہے اور ہم شاید مہونے کی طرح کبھی بھی نہ بن سکیں۔ کیا کرنا چاہیے ہمیں، یہ ایک اوپن کوئسچن ہے۔

No comments:

Post a Comment