Tuesday, May 2, 2017

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے

زندگی بہت عجیب شے ہے، اس میں انسان کچھ ڈھونڈنے نکلتا ہے اور کچھ اور پکڑ کر واپس آ جاتا ہے۔ نیز اس قسم کی پوسٹیں ہم ہمیشہ فائنلز سے قبل کیا کرتے ہیں۔
ایک امتحان ہمارے بیچلرز میں ہوا کرتے تھے اور پھر ایک اب ہوتے ہیں جن میں ہم چار میں سے ایک سوال حل کرنے کے بعد اندر تک خوش خوش گھر لوٹتے ہیں کہ پرچہ اچھا ہو گیا۔
یہ اعتراف کرنے میں ہمیں کچھ عار نہیں کہ پٹزبرگ اور کارنیگی میلن سے ہمارا وہ دلی تعلق ہے جو کبھی راولپنڈی اور ہمارے انڈرگریجیوئیٹ ادارے سے نہیں بن سکا۔ ہمارے مالی حالات کا بھی دیوالیہ نکل چکا ہے اور ہمارے گریڈز کا بھی مگر ہم یہاں خوش رہا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مطمئن۔
اپنی ذات پر تبصرے کرنے کو ہم یوں تو وقت کا ضیاع خیال کرتے ہیں مگر اتنا محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتے کہ انسان کو خود اپنا علم نہیں ہوتا کہ وہ کب کچھ سے کچھ ہو جائے۔ خدا جانے وہ کون سے لوگ ہوتے ہیں جنھیں فطرت نے خود آگہی سے نواز رکھا ہوتا ہے۔ ہم کہ دنیا پر بھروسا نہیں کیا کرتے، خود پر تو بالکل نہیں کرتے اور اسی مارے ہم لوگوں سے وعدے کرنے سے بھی کتراتے ہیں اور تمیز سے بات کرنے سے بھی کہ مبادا اگلے غریب کا دل نہ ٹوٹ جائے جب اگلے دن ہم تہذیب کے موڈ میں نہ ہوں تو۔
امید اور توقع اور قسمت پر بھروسے کی کھونٹی پر ہم کبھی کچھ نہیں ٹانگا کرتے کہ ایک تو دنیا ہماری بھلائی کے لیے وجود میں نہیں لائی گئی اور دوئم کچھ ہم ازل سے قنوطیت پسند واقع ہوئے ہیں لیکن کبھی کبھار کچھ امیدیں خودبخود دل میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ شاید اس میں کچھ قصور امریکہ جیسے رجائیت کے مارے ہوئے معاشرے میں رہنے کا بھی ہے کہ ہم آج کل سادھنا پوری ہونے کی آس لیے پھرتے ہیں اگرچہ ہمیں اپنی قسمت کے ٹریک ریکارڈ کا بھی اندازہ ہے۔
لوگ کہا کرتے ہیں کہ پچیس سال کی عمر کے بعد آدمی تبدیل ہونا بند کر دیتا ہے۔ ہم نے تو جس دن تھالی میں لڑھکنا بند کر کے بینگن سے انسان بننے کا سفر شروع کیا تو خدا کا بہت سارا شکر ادا کریں گے۔
ہماری ایک دوست ہمیں اخروٹ سمجھ کر خوش ہوا کرتی ہیں جس پر ہم بہت جھنجلایا کرتے تھے لیکن اب علم ہوا ہے کہ ہم پر بہت گہرا اثر بھی ہو جایا کرتا ہے معمولی باتوں کا۔ خاموشی سے، رفتہ رفتہ مگر بہت گہرا۔ سٹل واٹرز کی تشبیہ سے ہم جتنا تنگ ہوتے ہیں یہ اتنا ہمارے گلے پڑتی ہے۔
ہماری درخواست اپنے آپ سے صرف اتنی ہے کہ انسان ایک سا ہو، ایک۔ قنوطی یا رجائیت پسند، مادہ پرست یا   درویش۔  سطحیت پسند ہو یا پھر عمیق۔ فیراری کے خواب دیکھے یا پھر کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر جوتے مرمت کرنے کے۔ مشینوں کی تعلیم پر توجہ دے یا پھر شعر کہنے پر۔ اگر ستارے پسند کرے تو پھر ہاتھ بڑھا کر ان تک پہنچنے کی کوشش کرے جس کے لیے بستر سے اٹھنا شرط اولین ہے۔
ہماری شخصیت میں چمچہ چلنے کی اتنی شدید ضرورت ہے کہ کیا بتائیں۔ ہنر تو ہمارا اپنا اوسط درجے کا ہی ہے، لہذا اقبال کا مصرعہ چرایا کرتے ہیں کہ ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو۔
اپنی دو رنگی بلکہ رنگا رنگیوں سے ہم اس قدر بیزار ہیں کہ  خود آگہی قسم کی گفتگو کرنے والوں کو بھی بے کار  سمجھا کرتے ہیں مگر کبھی کبھی خود اپنے آپ پر اتنی شدید حیرت ہوتی ہے کہ بس۔  ہم ایسے عادی قنوطی ہوا کرتے تھے کہ رسل کی نصیحتیں بھی پی گئے مگر اب جب اپنے مستقبل پر غور کرتے ہیں تو امید کے ٹمٹاتے دیے کے سوا کچھ نہیں نظر آتا جس کے بارے میں ہمیں بخوبی علم ہے کہ امکانات کے ساتھ امیدیں وابستہ کرنا بےکار ہے لیکن غالب کے الفاظ
میں پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں، پھر وہی زندگی ہماری ہے۔
شاید سوشل آکورڈنیس کے علاوہ ہم میں کچھ پہلے جیسا رہا نہیں۔ وہ البتہ دم کے ساتھ جائے گی۔ اس عمر کو پہنچنے پر بھی انسان اگر انسانوں سے بات کرنے سے قاصر ہو تو پھر وہ لاعلاج ہوتا ہے اور اسے غار ڈھونڈنا چاہیے، سو وہ اب ہم ڈھونڈ ہی رہے ہیں کہیں کسی لیب کی صورت میں۔ خدا جانے ہمیں دنیا کے کس کونے میں ملے، اور ملے نہ
ملے۔
دنیا سے بیزاری بھی ہماری وہی ہے کہ اگر ہم اگنور کیے جائیں تو برا مانتے ہیں اور اگر نہ کیے جائیں تو مزید مانتے ہیں اور اس کا بھی شاید کوئی حل نہیں۔
اکیلے رہنے کا شوق ہمیں ہمیشہ سے رہا ہے اور وہ اب بخوبی پورا ہو رہا ہے، یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے۔ لیکن اس کے باوجود ہم لوگوں کو یاد کیا کرتے ہیں اور دہائیاں گزرنے کے بعد بھی شاید کرتے رہیں گے۔ یہاں ہمیں اپنے آپ سے اختلاف ہے کہ یاد رکھنے کی صلاحیت کو کام کی باتیں یاد رکھنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، بیکار لوگوں کے لیے نہیں۔ پھر ہمیں بیکار کی تعریف پر بھی اعتراض ہے کہ ہم اپنے حلقہ احباب میں لوگوں کو شامل تو کر لیا کرتے ہیں مگر نکالتے نہیں کہ یہ ہمارے مسلک میں منع ہے۔
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں
اپنے بارے میں ہماری صرف وہ پیشن گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں جو ہم اپنی تیسرے درجے کی شاعری میں کیا کرتے ہیں اور جو اپنے درجے کے سبب ہماری تحریر میں جگہ نہیں پا سکتیں۔
خلاصہ یہ کہ نرم ترین الفاظ میں ہم ایک ورک ان پراگریس ہیں مگر یہ بات لوگوں کو سمجھائے کون۔