Thursday, November 14, 2013

وہ دن گئے کہ کہتی تھیں، نوکر نہیں ہوں میں

بہت سے ' فالس الارمز' کے بعد اس مرتبہ ہم نے خود اپنی توقعات اور کبھی کبھی ابھرنے والے شیطانی خیالات کے برعکس ایک ہی جگہ پر لگاتار تین ہفتے کام کیا جو ہمارے ماضی کو دیکھتے ہوئے ایک ریکارڈ ہے۔ فی الحال اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہم فقیرانہ مزاج رکھتے ہیں اور کبھی بھی، کہیں سے بھی ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں۔
اپنے تئیں نہایت سنجیدہ اور عرفِ عام میں سڑیل ہونے کے باوجود دفتر جا کر معلوم ہوا کہ سنجیدگی کیا ہوتی ہے۔ یادش بخیر، وہاں پورے دن کی پیہم خاموشی سے وہ دن یاد آ جاتے ہیں جب بچپن میں ہمیں لوگوں کے گھر جا کر تمیز اور رکھ رکھاؤ کا مظاہرہ کرنا پڑتا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں ضرورت سے زیادہ تہذیب سکھائی گئی ہے، لیکن بھئی یہ دفتر تو ہمارے لیے بھی بہت لمبی اداکاری ہے۔
قدرت نے ہماری ڈیمپنگ بہت کم کی ہے لہذا ہمیں سیٹل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ ہر نئی جگہ ہمیں پریشانی ہوتی ہے اور دفتر بھی اس سے مستثنی نہیں۔ وہاں ہماری جان پہچان صرف اپنے ہینڈ بیگ سے ہے۔ ہاں ایک اور خاتون بھی ہیں مگر وہ ایک انتہائی معقول خاتون ہیں اور ہنسنے والی باتوں میں ہمارا ان کا ذوق بے حد مختلف ہے۔ خیر یہ کیا کم ہے کہ خدا نے ہمیں ایک عدد لنچ کمپینئن عنایت فرمایا ہے اور لنچ کرنے کی جگہ بھی۔ لوگوں سے ملنے کے کون سا ہم شوقین ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اب ہمارے دوستوں کی فہرست پر مہر لگ چکی ہے۔ اب ہمیں پرانے والوں کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا، اور انھیں ہمیں مزید برداشت کرنا پڑے گا۔
 اس مرتبہ ہم اپنے پرانے تجربوں سے ذرا محتاط ہو چکے تھے۔ وہ جو جناب ڈارسی نے تخیل کی سبک پروازی کا طعنہ دیا تھا تو وہ مسئلہ ہمارے ساتھ بھی ہے اور جب ہمیں کوئی انٹرویو کے لیے بلاتا ہے تو ہم سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ نوکری چھوڑ کر کب جائیں گے۔ مگر اس مرتبہ ایک تو ہماری ایک دوست نے ہمیں الٹی سیدھی باتیں کرنے سے منع کر دیا تھا اور لگے ہاتھوں الٹی سیدھی باتوں کی واضح تعریف بھی کر دی تھی، دوسری طرف ایک اور دوست نے خیر سے ہماری سفارش بھی کر دی تھی۔ کچھ انٹرویو لینے والے بھی نئے نئے لوگوں سے بدتمیزی کر کر کے تنگ آ چکے تھے۔ پھر اس سفارش کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ اگر یہ صاحبہ ہمارے ناول کا فلیپ لکھنے کا وعدہ کر لیں تو ممکن ہی نہیں کہ ہم کہ افسانے تک لکھنے کے قابل نہیں، کم از کم اس بر اعظم کے سب سے بڑے ناول نگار نہ کہلائیں۔ ان کے قریب آڑے ٹیڑھے ڈیجیٹل سرکٹس بھی ٹھیک ہو جایا کرتے ہیں، ناول کی صنف کیا شے ہے۔ خیر ان کا احسان کم از کم تک اس وقت تک ہمارے گلے میں رہے گا جب تک ہم اپنی فیلڈ تبدیل نہیں کرتے۔ اسے اتارنے کے لیے ہم وقتاََ فوقتاََ انھیں اس نوع کے شکی پیغامات بھیجتے رہتے ہیں:۔
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
البتہ ہماری پہلی دوست زیادہ باقاعدگی سے خیر خبر لیتی رہتی ہیں، لیکن چونکہ ان کی باتوں میں آئسکریم اور سردیوں کی دھوپ میں سیر کا ذکر ہوتا ہے اس لیے ہم ذرا اداس ہو جاتے ہیں۔۔
ویسے تو ہمیں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے کی اچھی بھلی عادت ہو چلی تھی مگر پھر ہمارا موبائل داغِ مفارقت دے گیا۔ ایک نئے، اچھے، چمکدار اور برق رفتار سمارٹ فون کے خواب نے ہمیں گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ بے روزگاری کا یہ تمام دورانیہ ہم نے آنلائن اور آف لائن شور مچاتے ہوئے گزارا۔ نہ ہم فارسی سیکھ پائے اور نہ ہی فرانسیسی ، یعنی ہماری جہالت کا کچھ علاج نہ ہو سکا۔ وہ عیش بھی گئے کہ ہم روزانہ نئی کتاب پڑھتے تھے۔ اب بہت سی جگہوں پر' کارِ جہاں دراز ہے' کی تختی لگانا پڑے گی۔
معاشی خود مختاری کے بارے میں ہمارے خیالات نہایت پختہ ہوتے تھے مگر دو دن رات گئے گھر لوٹنے پر انھوں نے یوٹرن لے لیا۔ بات یہ ہے کہ گھر کے کام کاج بے شک بہت سارے ہوتے ہیں اور بلاشبہ انھیں کرنے والے انتہائی بے کار سمجھے جاتے ہیں مگر اس میں بستر پر لمبے لیٹنے کا اچھا خاصا سکوپ ہوتا ہے۔ سالن چڑھایا اور آ کر لیٹ گئے۔ گھر کی صفائی کی اور آ کر لیٹ گئے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سونا تو ایک عام سی بات ہے۔ اور کس کے دفتر میں قیلولہ کرنے کی جگہ ہوتی ہے؟ گوگل میں سنتے ہیں کہ ہوتی ہے مگر اس کا دفتر ہمارے شہر سے ذرا دور ہے۔ رہی لوگوں کی رائے، تو اس کی کس کافر کو پروا ہے۔ اب ہم خود ہر وقت یہی راگ الاپتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے، ہمیں کون سا کوئی مجبوری لاحق ہے کہ یہ روز روز کی خواری کرنا ضرور ہو۔ جب جی چاہے گا، اپنی مرضی سے چھوڑ دیں گے۔ تاریخیں بھی ساتھ ساتھ دیا کرتے ہیں۔ اب اگر ان کا حال مرزا غالب کی نکالی ہوئی تواریخِ وفات کا سا ہو تو لوگوں کو ہماری غالب سے مماثلت دیکھنی چاہیے، بینگنوں کو یاد نہیں کرنا چاہیے۔
پھر ہمارا یہ بھی خیال تھا کہ لکھنے پڑھنے کے شوق روزگار کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہیں۔ اکثر تخلیق کار شکوہ کرتے ہیں کہ زمانہ ان کی قدر نہیں کرتا اور انھیں معاشی فکروں سے آزاد ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے ہنر پر توجہ دے سکیں۔ پہلے تو ہم اس نظریے کے کٹر مخالف تھے۔ معاشی طور پر کسی کا دست نگر ہونا ایک تو فیمنسٹ بنیادوں پر ہمیں برا لگتا ہے، دوسرا یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تلاشِ معاش ، کسی بھی شوق کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔
مگر اب ہم خود کچھ زیادہ لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ پڑھنے کو وقت نہیں ہوتا اور لکھنے کو ادھر ادھر سے کچھ نہیں ملتا۔ اور بکواس تو چھوڑیے، طنزیہ مضامین تک لکھنا مشکل ہیں کہ یہ دفتر اس قسم کی جگہ ہے جس کا مذاق بھی نہیں اڑایا جا سکتا۔ اس سے زیادہ غیر دلچسپ اور بور جگہ آج سے پہلے کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
پہلی مرتبہ علم ہو رہا ہے کہ ٹریفک ہمارے ہاں کا کتنا بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر اگر شام کے رش میں انسان پھنس جائے تو سمجھیے کہ اب آپ کے کئی گھنٹے سڑک پر کھڑے کھڑے گزریں گے۔ خدا جانے ٹیلی پورٹیشن کب ایجاد ہو گی۔ اندازہ ہے کہ کم از کم ہمارے ہاں زمین دوز ریلوے کا نظام آنے سے پہلے ہی ہو جائے گی۔ ویسے ڈر یہ ہے کہ کہیں بالائے زمین ریلوے کے ٹھیک ہونے سے پہلے ہی نہ ہو جائے۔ بہتری تو خیر کیا ہی آنی تھی مگر گزشتہ کچھ برسوں میں ٹرینوں کا رہا سہا نظام بھی پہلے سے زیادہ خستہ حال ہو گیا ہے۔ اس کا نوحہ پڑھتے ہوئے ہم جذباتی ہو جاتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا کچھ خوبصورت ترین حصہ ٹرینوں میں گزرا ہے۔ اگر اب ہم سوئٹزرلینڈ بھی سیر و تفریح کو چلے جائیں تو ویسی خوشی نہیں ہو سکتی۔
سوئٹزرلینڈ سے یاد آیا کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ نوکری شدہ (جو رفتہ رفتہ نوکری زدہ معلوم ہونے لگتی ہے) زندگی میں معمول یہ ہونا چاہیے کہ انسان گیارہ مہینے کام کرے اور ایک مہینے کی رخصت لے کر دنیا دیکھے۔ اگر ہم کام اپنی انتہائی پسند کا نہیں کر سکتے، مثلاََ کسی یونیورسٹی میں سٹرنگ تھیوری یا موازنۂ انیس و دبیر یا روسی مصنفین پر لیکچر دینا، تو چھٹیاں تو انتہائی پسندیدہ شکل میں گزار سکتے ہیں۔ اس پر ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ پہلے گیارہ مہینے کام تو کر کے دکھاؤ، پھر خیالی پلاؤ پکانا۔ خیالی پلاؤ کا طعنہ اتنا بھی غلط نہیں کیونکہ ہمیں اگلے محلے جانے کے لیے بھی گھر سے این او سی درکار ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کہ کم از کم ہمارے ادارے والے تو کم چھٹیاں دینے کے علاوہ سیروتفریح پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں لگاتے۔ خیر ہم ہمیشہ کی طرح اپنی امیدیں بلند اور توقعات کم رکھیں گے۔ ویسے بھی دس مہینے کام کرنے کے بعد ہمارا فیلڈ تبدیل کرنے کا ارادہ ہے۔
اب معمول یہ ہے کہ ہم صبح صبح بستر سے اٹھتے ہیں، دفتر اترتے ہیں اور ناک کی سیدھ میں چلتے ہوئے اپنی کرسی پر پہنچ جاتے ہیں۔ شام کو گھر آ کر دوبارہ ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ شروع شروع میں تو ہم آنے جانے کے وقت سے بہت خائف ہوئے کہ چھٹیوں میں روزانہ بارہ گھنٹے سونے کی عادت ہو گئی تھی۔ ان دنوں تو ہمیں اخبار پڑھنے کا بھی وقت نہیں ملا اور اندازہ تک نہ ہوا کہ حادثے کیا کیا ہماری بے رخی سے ہو گئے۔ اب رفتہ رفتہ اس مشقت کی زندگی کا عادی ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ویسے ہمارا دفتر بری جگہ نہیں، وہاں گیمنگ کے لیے وقت بھی ہے اور اچھا سا گرافک کارڈ بھی۔ ہمارے جلد اٹھ آنے پر بھی کوئی معترض نہیں ہوتا مگر اس زمانے کا یونیورسٹی کے ان شب و روز سے کوئی مقابلہ نہیں جو دن کسی کی ہمقدمی میں بسر ہوئے۔
خیر یہ ہے کہ ہمیں کام ایسا ملا ہوا ہے کہ ہم اس کے غیر دلچسپ ہونے کا بہانہ نہیں کر سکتے۔ پھر بھی اپنے قصۂ غم سے زیادہ دراز پیپر اور اس سے بھی طویل کوڈ لگاتار پڑھنے کے لیے اچھا خاصا جگرا درکار ہوتا ہے، چاہے وہ سی میں ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہماری انتہائی ذاتی اور انتہائی متعصب رائے ہے کہ ڈیجیٹل سگنل پراسیسنگ محض کامن سینس کا مجموعہ ہے جسے لوگوں نے تھوڑی سی ریاضی اور فلو چارٹس چھڑک کر ایک الگ مضمون بنا چھوڑا ہے۔ ( اس میں اس کی تمام شاخیں مثلاََ امیج پراسیسنگ وغیرہ وغیرہ بھی شامل ہیں)۔ ہمارا تعصب اپنی جگہ مگر نئے نئے لوگوں کو ایک دم اتنا ڈھیر سارا کوڈ نہیں دینا چاہیے ایک ہی ساتھ پڑھنے کو۔
مقامِ شکر ہے کہ اب ہمیں اس میں کیڑے یعنی بگز نکالنے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ ادب کے میدان میں تو گھسنے نہیں دیا جاتا، اپنا تنقید کا شوق یہیں پورا کرنا پڑے گا۔ ویسے اتنا ضرور ہے کہ اب چونکہ ہماری معاشی حالت پہلے سے بہتر ہو گئی ہے تو شاید ادب میں بھی ہماری کچھ شنوائی ہو جائے۔
تجربہ کار لوگوں کا کہنا ہے کہ تنخواہ ملنے سے سارے دکھ درد دور ہو جاتے ہیں، مگر یہ ایک تو ابھی تک ہمارے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اور پھر ذرا محدود ہے یعنی اس سے ہیلی کاپٹر یا فارم ہاؤس وغیرہ اتنی جلدی نہیں خریدے جا سکتے۔ کنڈل ہمارے پاس ہے اور بحمداللہ اور کسی شے کی ہمیں ضرورت نہیں۔ خیر ہے تو سہی مگر وہ اجناس فروختنی نہیں، مثلاََ ضمیر، ایک عدد سپائن اور کچھ گٹس۔
اب ہمارے لیے لکھنے کو کچھ رہ نہیں گیا، سوائے اس کے کہ ہمارے گنگنانے سے تنگ آ کر یہ لوگ ہمیں نکال باہر کریں یا ہم نوکری چھوڑ دیں۔ ایک دوست کا کہا درست معلوم ہوتا ہے کہ نوکری شدہ زندگی بے حد فلٹر ہو جاتی ہے اور اس میں سے ساری اونچ نیچ ختم ہو جاتی ہے۔ اب اگر ہم لکھنا بھی چاہیں تو اپنے آپ سے کم احمق اور نتیجتاََ کم دلچسپ کوئی موضوع چننا پڑے گا۔
روح تو خیر ہماری ازل سے قدیم تھی مگر اب ہڈیاں بھی بوڑھی ہو گئی ہیں، لہذٰا اب غیر کنڈکٹر افراد بھی ہمیں آنٹی کہہ کر پکار سکتے ہیں۔

Saturday, September 28, 2013

دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے


تو آخر کار ہم بھی ، اپنی توقعات کے برعکس، بر سرِ روزگار ہو ہی گئے۔

ہماری بیروزگاری کی داستان زیادہ طویل نہ سہی پر دردناک ضرور ہے۔ خدا کے فضل سے جب سے ہم صاحبِ کنڈل ہوئے ہیں، روپے پیسے کے محتاج نہیں رہے۔ پریشانی تھی تو اتنی کہ کہیں ہم گھر میں پڑے سوتے نہ رہ جائیں اور سمندِ وقت کہ ذرا بے نیاز واقع ہوا ہے، ہمیں چھوڑ کر آگے نہ نکل جائے۔
مفلسی ، چاہے اس سے انسان کو خود پریشانی نہ ہو، بلاشبہ سب بہار اور اعتبار کھوتی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے نکمے پن کے طعنے سننے کے لیے بڑا جگرا چاہیے۔ بے کار اور فارغ انسان کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور ہر کوئی اس سے اپنا کام کرانا چاہتا ہے۔
پھر اندیشہ اس امر کا بھی تھا کہ کہیں پیہم پریکٹس کے باعث ہم ایسا کھانا نہ پکانا شروع کر دیں کہ یوسفی کے نزدیک تعلیم یافتہ خواتین کے گروہ سے خارج قرار پائیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس کا کوئی امکان نہیں۔ ویسے یوسفی صاحب سے ہم انتہائی مرعوب ہیں اور پچاس ساٹھ سال بعد ان جیسا لکھنے کے خواب بھی دیکھا کرتے ہیں مگر ایسے بے کار کلیشے اب اٹھا کر پھینک دینے چاہیں۔ اس موضوع پر بھی ایک مقالہ ادھار رہا۔
ہوا کچھ یوں کہ بے کاری کے ایک طویل دورانیے کے بعد ہم نے اچھے شعر پڑھ کر مسکرانا اور کھانے پر کھی کھی کرنا چھوڑ دیا۔ ہمارا رنگ زرد تر اور ہماری آہیں سرد تر ہوتی گئیں۔ ہم میں وہ ساری علامات دکھائی دینے لگیں جن کے نمودار ہونے کے بعد لوگ مع چاک گریبان صحرا کو نکل جاتے ہیں، اس حد تک کہ ہمارے گھر والے بھی کہ ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھری مشرقیت سے کماحقہ واقف ہیں، ہماری طرف سے مشکوک ہونے لگے۔ قریب تھا کہ ان کا شک یقین میں بدلتا کہ ہم نے ایک درد آشنا کے مشورے پر اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور وقتی طور پر غالب کو چھوڑ کر پروین کی پیروی اختیار کی۔ بایں ہمہ کے اس کے ساتھ وہی کلاسک المیہ وابستہ ہے کہ ہمیں لفٹ تو مل جاتی ہے مگر وہاں سے نہیں جہاں سے ہم لینا چاہ رہے ہوتے ہیں-----ہمیں نوکری مل گئی ہے۔
اگرچہ یہ نوکری عارضی ہے، مگر بات یہ ہے کہ ہم خود کون سا پکے ہیں۔ آج ہیں، کل نہیں ہوں گے۔ اپنے آج ہونے پر بھی ہمیں کچھ شک ہے، اور 'ہونے ' کے مفہوم پر بھی مگر فی الحال ہم ذرا خوش ہیں یعنی فلسفے کے موڈ میں نہیں۔
تنخواہ کے ساتھ پرکشش کا سابقہ استعمال کیا جاتا ہے مگر یہاں کل کشش دو ایسے افراد میں ہے جن کے بارے میں اقبال نے کہا ہے
از بزمِ جہاں خوشتر، از حور و جناں خوشتر
یک ہمدمِ فرزانہ و ز بادہ دو پیمانہ
آزاد ترجمہ: دنیا کی محفل سے بلکہ حوروں اور جنت سے کہیں بڑھ کر ہیں، ایک سمجھدار دوست اور دو لبریز ساغر۔
ایسے دوستوں کا ساتھ ہو تو ٹھنڈا پانی بھی کافی ہوتا ہے۔ تنخواہ البتہ ہم ضرب دیے بغیر نہ بتا سکیں گے، ویسے بھی اس پر جتنی تُو ملتی جائے اتنی لگے تھوڑی کا اصول لاگو ہوا کرتا ہے۔
ہر کام کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسائل وابستہ ہوتے ہیں، سو وہ ادھر بھی ہیں۔ یہاں لینکس استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی الٹی ہو گئیں سب تدبیریں گنگنایا جا سکتا ہے ۔
امید ہے کہ ہماری آئندہ زندگی ایک ڈی سی زندگی ہو گی کہ پڑھنے کے ہم چور واقع ہوئے ہیں اور نوبیل عام طور پر بجلی والوں کو ملا نہیں کرتا۔ہمارا ارادہ ہے کہ آئندہ پانچ چھ سال میں، جب ہم کھانے والی تمام اشیا کھا چکیں گے، تو صحیح معنوں میں دنیا ترک کر دیں گے۔ اس کے بعد ایک لمبی سی کالی چادر اوڑھ کر کسی درخت کے نیچے جا بیٹھیں گے، سچ بولیں گے اور گزر اوقات کی خاطر لوگوں کے جوتے مرمت کیا کریں گے۔ گیان ملنے کا تو خیر زمانہ نہیں، ہمیں اگر اطمینانِ قلب ہاتھ آ جائے تو بہت ہے۔
اگر ہمیں اندازہ نہ ہوتا کہ یہاں کچھ عملی کام کرنا ہو گا تو ایک لحاظ سے خود کو آئن سٹائن کا ہم پلہ سمجھ سکتے تھے۔ اب ہم صرف اور صرف سائبر سپیس کے ایک اور منشی ہوں گے۔
تو لیجیے صاحبو، یہاں ہماری خود نوشت ایک اختتام کو پہنچتی ہے، جسے ہم نے کسی کے چیلنج کرنے پر غیرت کھا کر لکھنا شروع کیا تھا۔ معاشرے میں ہمارا ایک مقام ہے اور وہ بھی سنجیدہ سا، لہذا اسے ناقابلِ اشاعت سمجھیے۔ پھر ابھی اردو ادب پر اتنا برا وقت نہیں آیا کہ ہم سے بے ادب اپنی خودنوشت لکھیں۔ ان تمام قارئین کے ہم شکر گزار ہیں جنھوں نے اسے پڑھنے کی زحمت کی۔ اگر کسی نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مسکرا دیا تو اس کا شکریہ ادا کرنا تو ممکن ہی نہیں۔ایسے تمام کرم فرماؤں کو ہم اپنے دلِ مرحوم کا ایک ایک ٹکڑا ، کہ بیچارا بار بار ٹھکرائے جانے کے باعث چور چور ہو چکا ہے، فرداََ فرداََ پیش کرتے اگر کسی کام کا ہوتا تو۔ اب اپنے ایک نئے نئے پسندیدہ مصنف کی کتاب کے انتساب سے اٹھایا ہوا شعر آپ کی نذر کرتے ہیں:
تجھ کو خبر ہے، تیرے تبسم سے کیا ہوا؟
دل زندگی سے بارِ دگر آشنا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اپڈیٹ: آئیڈیل اور پریکٹیکل میں کیا فرق ہوتا ہے، اس کا اندازہ ہمارے حالاتِ زندگی کے مطالعے سے معلوم ہو سکتا ہے۔ یہ تاثرات تو ہمارے نوکری پر جانے سے قبل تھے۔ دو دن جانے اور چھوڑ کر بھاگ آنے کے بعد جو خیالات ہیں وہ پھر کبھی قلم بند کریں گے۔ اتنا سمجھ لیجیے کہ غالب کی پیروی کرنا اختیاری فیصلہ نہیں، لہذا اس سے فرار ناممکن ہے، چاہے آپ اس بندۂ خدا کے بالکل برعکس تیسرے درجے کے شعر ہی کیوں نہ کہتےہوں۔ موزارٹ کی بددماغی بھی سنا ہے کہ ہمارے آس پاس ہی کی چیز تھی۔ اب یہ کہاں لکھا ہے کہ بددماغ ہونے کے لیے کسی قابل ہونا شرط ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بنانے میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی ورنہ ہم بھی کام کے انسان ہوتے، یعنی اگر ہم میں کوئی صلاحیت رکھ دی جاتی تو۔ نخرا تو ہم میں پورا پورا ہے۔
ایک تو خدا کسی کو خاتون نہ بنائے، اگر بنا ہی دے تو پھر ایسی کند ذہن، کاہل اور کم حوصلہ تو ہرگز نہ بنائے۔ مگر اس کی داستان تو اس قدر دکھی ہے کہ ہم کچھ عرصے تک لکھنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ ہم احمق ضرور ہیں اور بے تحاشا ہیں مگر اس قسم کے ہرگز نہیں جیسا لوگ صرف ہماری شکل یا نام دیکھ کر گمان کیا کرتے ہیں۔
بے روزگاری بذاتِ خود اتنی بری شے نہیں، ، بدترین امر بار بار ٹھکرایا جانا ہے، اور وہ انتظار جسے بجا طور پر موت سے شدید تر کہا جاتا ہے۔ خدا ان لوگوں کو سمجھے جو ایک تو صبح سویرے کے انٹرویو کے لیے بلاوا بھیج دیتے ہیں اور پھر ایک عدد انکاری ای میل کرنے کی زحمت بھی نہیں گوارا کرتے۔
خیر اب اندازہ یہ ہے کہ اپنی ساتویں بیس میں اکتیسویں سالگرہ پر ہم بے روزگار ہی ہوں گے ۔ خود ہم نے تو اب پروا کرنا چھوڑ دیا ہے، اور لوگ البتہ یہ پڑھ کر عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ شاید ہمارا وہم ہی تھا کہ ہم پرابلم سالونگ اور الگورتھم ڈیزائنگ وغیرہ وغیرہ میں اچھے ہیں اور مائیکرو ویوز سے لے کر لوگوں کی گفتگو تک سب کچھ ڈی سائفر کر سکتے ہیں۔ اب فارغ رہ کر شاید پیانو بجانا ہی سیکھ لیں۔ کیا پتہ ہماری موزارٹ سے کوئی میوزیکل رشتہ داری نکل آئے۔

Thursday, August 8, 2013

Eid with high fantasy and a broom

So it is Eid again. One of the very few predictable things in life, that can be relied upon to come every year.
Finally I am tired of playing the bayrozgari card. It failed to fetch any sort of pity or compassion from a lot of quarters. People ignored the bayrozgar spook just as pointedly as they had been ignoring the student one. Almost no one understands the pathos I am in, being so very old and still dependent on others. So I have decided to ditch the card, keep my ego locked up at home and do some serious job hunting.
Life is so cruel. Sigh.
These days I am reading the first book of an epic fantasy series, titled The Way of Kings. Apparently there are nine more books to come in this series. Hopefully, Brandon Sanderson, the writer, will not be as slow as GRRM.
Writing stories, particularly those with a touch of fantasy, has always been a dream for me, mostly because my story writing skills are truly pathetic. For some time, I have been trying to convince a friend with a good imagination to write something. She even wrote a novel once, so she can write one again. Please?
As for the broom, it is an integral part of Eid. Always has been, always will be, since the chances of AI and computer vision etc etc progressing enough to develop cleaning algorithms for our desi homes in near future are pretty slim.

Friday, August 2, 2013

زندگی بعد از ریٹائرمنٹ

تو آج کل ہم ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں، پنشن اور دیگر مراعات کے بغیر۔ شاید ایک دو مہینے میں ہم اس قابل ہو جائیں کہ ریٹائرڈ افراد کی زندگی پر ایک ضخیم کتاب لکھ سکیں۔ فی الحال چھوٹی موٹی پوسٹوں پر ہی گزارا کرنا ہو گا۔
قصہ یہ ہے کہ ہمارے غیر پیشہ ورانہ سکلز کے بارے میں تو کسی کو کسی قسم کا شک شبہ نہیں کہ ہم سند یافتہ نکمے اور کام چور ہیں۔ اب گھر میں رہنے کے باعث لوگوں کو شک ہو گیا ہے کہ ہمارے پیشہ ورانہ سکلز کے حالات بھی چنداں مختلف نہیں۔ پھر پڑھنے پڑھانے سے ہم نے چھٹی کر لی ہے کہ سکول میں زبردستی جمع کرائے گئے بچے کو رسی تڑا کر بھاگنے کا موقع اب ملا ہے۔ اگرچہ اب ہم کچھ تو لوگوں کے رویے کی وجہ سے اور کچھ اپنے ہر فیصلے پر پچھتانے کی عادت کے باعث اس فیصلے پر پچھتا رہے ہیں، لیکن اب کیا کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں اپنی بزرگی کا بخوبی احساس ہے اور ہم تقریباََ تمام وقت اس کا دھیان رکھتے ہیں مگر نجانے کیا بات ہے کہ لوگ ہمیں وہ رعایتیں دینے پر تیار نہیں ہوتے جو معمر افراد کا حق سمجھی جاتی ہیں۔ اب ایک آدھ دن قبل ہی کا ذکر ہے، ہم حسبِ معمول اپنی اماں سے پوچھنے گئے کہ چونکہ وہ ہمارے میلے کپڑوں پر کئی مرتبہ ٹوک چکی ہیں تو اب ہمیں کون سا لباس زیبِ تن کر نا چاہیے۔ انھوں نے پہلے تو ہمیں کچا چبا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر ایک تقریر کی جس کا ملامتی کلمات حذف کرنے کے بعد مفہوم یہ بنتا تھا کہ ہماری عمر اتنی ہو چکی ہے کہ ہمیں خود علم ہونا چاہیے۔ اب سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہماری عمر واقعی اتنی ہو چکی ہے تو کیا ہمارا احترام لوگوں پر واجب نہیں؟ اگر کوئی بیچاری ڈریسنگ سینس(یا کامن سینس) کی کمی کی ماری کچھ پوچھ رہی ہے تو اس کی مدد کرنے میں کیا حرج ہے۔لیکن نہیں صاحب، ہماری جملہ حماقتوں کا مفصل بیان ضروری ہے یہاں۔ اگرچہ ہم نے اپنے تئیں اپنی اماں کو سمجھانے کی خوب کوشش کی ہے کہ وہ فکر مند نہ ہوں، ہم ایک سیکریٹری رکھیں گے اور ایسے ادق مسائل اس سے حل کرایا کریں گے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دماغ کو جہاں تک ممکن ہو، غیر ضروری باتوں سے خالی رکھنا چاہیے تاکہ ضروری باتوں کی جگہ بآسانی نکل آئے( اب ہم سے ضروری باتوں کی فہرست نہ مانگی جائے)۔اس معاملے میں ہم شرلاک صاحب سے متاثر ہیں، جو نظامِ شمسی کے سیاروں کے نام جاننے سے پرہیز کرتے تھے۔ پھر کچھ جگہ کی کمی کا بھی مسئلہ ہے۔ آخر یہ ہمارا دماغ ہے، رابرٹ لینگڈن کا نہیں کہ ہر طرح کا کاٹھ کباڑ اس میں بھر لیا جائے۔ لیکن ہمارا معاشرہ ذرا سا ادھر اُدھر چلنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ پھر بزرگوں کے احترام میں یہاں یقیناََ کمی آئی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو الزام دیں۔ شاید مغرب سے متاثرہ اس طرزِ زندگی کے، جس کے ہم آج سے قبل بہت شائق ہوا کرتے تھے۔

Thursday, July 4, 2013

من کہ ایک جاہل اور فارغ گریجویٹ


کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے۔
ایک فہرست جس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے، ایک سپروائزر اور ایک کو سپر وائزر کے اضافے سے طویل تر ہو گئی ہے۔ سچ ہے کہ ناکامی یتیم ہوتی ہے۔ جب ہمارے سپروائزر ، جن پر ہم اچھا خاصا بھروسا کرتے تھے، جان گئے کہ ہمارے پروجیکٹ کو اوپن ہاؤس میں کسی قسم کی لفٹ نہیں مل رہی تو وہ بھی ہم سے نظریں چرا چرا کر گزرنے لگے۔
بنیادی کہانی تو یہی ہے کہ چار چھ مہینے اپنا چھوٹا سا دماغ کھپانے کے بعد اوپن ہاؤس بڑا شدید دل شکن تجربہ رہا۔ ایک دو افراد نے جب لفٹ کرائی بھی تو ان کا مقصد صرف اپنے تئیں ہمیں ہماری اوقات یاد دلانا تھا۔ایک صاحب نے موسم سے زیادہ سڑا ہوا منہ بنا کر ہمیں' میڈم، تو کیا آپ کا کام صرف۔۔۔' کہا کہ ہمیں بائیں ہاتھ سے اپنا دایاں ہاتھ پکڑتے ہوئے خود کو ان کی بزرگی اور جائے وقوع کی نامعقولیت کا احساس شدومد سے دلانا پڑا۔ متوازی کائناتوں کا نظریہ ذرا غیر سائنسی سہی مگر ہم صرف اسی لیے اس کے قائل ہیں کہ ایسے مواقع پر ہم گوشِ تصور سے دور دراز کسی کائنات میں پڑنے والی چماٹ کی گونج سن لیا کرتے ہیں۔ ویسے زیادہ تر وقت تو ہم نے اپنا وزن ایک ٹانگ سے دوسری اور دوسری سے پہلی پر منتقل کرتے گزارا۔ ایک بیچاری مروت کی ماری گروپ ممبر کہ ہمارا پان سگریٹ بوائے تھیں، ہم سے کہیں زیادہ متاثر ہوئیں کہ ہم نے چلچلاتی دھوپ میں ان کی اچھی خاصی پریڈ کروائی۔پان سگریٹ تو اس خرابے میں کیا ملنے تھے، ان کا زیادہ تر وقت پانی اور سامان ڈھوتے گزرا۔ خیر یہ ہے کہ انھیں خدا کے فضل سے کسی لفٹ کی قطعاََ ضرورت نہ تھی۔
ذرا عجیب بات ہے پر سچ یہی ہے کہ اپنا حالِ زار قلم بند کرتے کرتے خود سے مزید ہمدردی ہو جاتی ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ پراجیکٹ سے ہم نے اعلانِ برات ابھی کوئی دس منٹ قبل کر دیا ہے۔ اگر کسی شخص یا شے کو اس پر کسی قسم کا اعتراض ہے تو وہ اپنی پسند کا ایک کھڈا ڈھونڈے اور ا س میں آرام کرے۔ اگر اس میں گندا پانی موجود ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ اپنے سپروائزر اور پھر کو سپروائزر سے بد تمیزی کرنا ہے۔
اب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم رسمی طریقۂ تعلیم میں پڑنے یا پڑھنے کے باعث یا باوصف کس قدر جاہل رہ گئے ہیں۔ انجئینر ہمیں کوئی مانتا نہیں، بشمول ہمارے۔ تکنیکی علم ہمارا کسی الیکٹریشن سے بھی کم ہے۔ اور پھر اس سسٹم میں پڑنے کی وجہ سے ہم ہزاروں دیگر دلچسپ چیزیں پڑھنے سے رہ گئے ہیں اور نتیجتاََ دنیا کے بارے میں بالکل کورے ہیں۔ انسانوں سے بات کرنا ہمیں آتا نہیں اور جمالیاتی حس تو ہم سے زیادہ کسی گوبھی کے پھول میں ہو گی۔ اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ ہمیں سکھانے کی ان گنت مرتبہ کوشش کی گئی مگر وہ ہم ہی کیا جو کچھ سیکھ کر دیں۔
اگر سافٹ یا ہارڈ، کسی قسم کے سکلز میں کورے پن کا مقابلہ ہو تو ہم بے حد کامیاب ٹھہریں گے۔
فراغت کے لیے تو ہم نے کچھ مشاغل ڈھونڈے ہوئے ہیں، جن میں آم، حافظ, سندھ اور خواب سرِ فہرست ہیں۔ جہالت البتہ پریشان کن امر ہے اور ہم اس مرتبہ سنجیدگی سے اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں۔ دیکھیے اب کے غم سے جی میرا، نہ بچے گا، ، بچے گا، کیا ہو گا۔
ستمبر کی اپڈیٹ: ایک سے زیادہ افراد نے اقرار کیا کہ وہ بدقسمتی سے، جو غالباََِ ان کی اپنی تھی، ہمارا پراجیکٹ نہ دیکھ پائے۔ دیر آید درست آید کے تحت ہم ان کی معذرت قبول کرتے ہیں۔

Friday, June 28, 2013

اگنور لسٹ اور ایک بس سٹاپ کی روداد

اس جہانِ رنگ و بو میں ان لوگوں کی فہرست دراز تر ہوتی جا رہی ہے جنہوں نے صاحبۂ بلاگ کو اپنی اگنور لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ اس صورت حال سے انتہائی متعلقہ اور بالواسطہ متاثرہ بعض اشعار بھی ہمارے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، مگر ہم نے سختی سے تہیہ کر رکھا ہے کہ کم از کم غیر معیاری منظومات یہاں جگہ نہیں پا سکتیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر قارئین شعر و شاعری سے چنداں شغف نہیں رکھتے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ناقدرے کے آگے شعر پڑھنا یا لکھنا ، پڑھنے یا لکھنے والے کی جانب سے انتہائی گری ہوئی حرکت ہے۔
تو ہم اپنا ماجرائے غم شروع کرتے ہیں۔ پڑھنے والے اپنی ذمہ داری پر پڑھیں۔
ہوا کچھ یوں کہ ہم نے ایک جگہ دو انٹرویو دیے، اور دوسری مرتبہ بطورِ خاص استری شدہ لباس زیبِ تن کر کے نکلے۔ قسمت سے ہمارا تعلق اس گروہِ انسانی سے ہے جسے نوکری کی تلاش میں نکلنے سے پہلے بھی اپنے کپڑے خود ہی استری کرنے ہوتے ہیں۔ پھر ان طویل نشستوں میں ہم نے کمالِ مہربانی سے بہت سے موضوعات پر اپنی رائے سے نوعِ انسانی کو نوازا، حالانکہ یہ کام ہم بآوازِ بلند کم کم کیا کرتے ہیں۔ ہمارا ایک ازحد ضروری شاپنگ ٹرپ بھی مس ہو گیا جس میں ہم کچھ کتابیں خریدتے اور بہت سوں کی زیارت پر اکتفا کرتے۔ مگر ہماری اس قدر دانی کا صلہ حسبِ دستورِ دنیا سرد مہری سے دیا گیا۔ اب ہم ہیں، بےروزگاری کے طعنے ہیں اور وہ تمنائیں ہیں جن کا اظہار ہم ہر نماز کے بعد اربابِ انٹرویو کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے لیے کیا کرتے ہیں۔
خیر اتنا نتیجہ ضرور نکلا کہ ہم نے دل شکستہ ہو کر اپنے میدانِ کار کو خیرباد کہنے کی تقریباََِ تقریباََ ٹھان لی ہے ۔ اب ہم سوچ رہے ہیں کہ یا تو فائنل ائیر پراجیکٹ بنانے کا بزنس شروع کریں یا پکے راگ سیکھنے کی طرف توجہ مبذول کریں۔ ویسے تو اور بھی شعبوں کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری نظرِ کرم کے منتظر ہیں، مثلاََ مصوری اور کوزہ گری، مگر انھیں ہم نے وقتِ پیری یعنی اگلی دہائی پر اٹھا رکھا ہے۔
بارے ایف وائے پی کا کچھ بیاں ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارا پراجیکٹ ایک نہایت سیدھا سادا اور شریف پراجیکٹ ہے، جبھی ہم اس پر کام کرنے کا بہانہ کر کے انٹرنیٹ پر پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ جمالیاتی حس کے معدوم ہونے اور ساتھیوں کی نرم دلی اور کے باعث ہم زیادہ کاموں سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے دوران ہم نے بہت سی باتیں سیکھی ہیں، جن کے بارے میں ایک تفصیلی پوسٹ پھر کبھی سہی۔ مختصراََ یہ کہ پراجیکٹ ایسا ہو کہ اس میں محنت، دماغ، وقت اور روپیہ کم سے کم خرچ ہو۔ اب نمبر کم آئیں تو ان کی خیر ہے ، کچھ سمجھوتہ تو کرنا پڑتا ہے۔
تو ہمیں مزید کچھ کمپنیوں نے بھی نظر انداز کیا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آج کل دنیا میں ایک ہی جگہ خالی ہے ، ہماری دوست کی۔ زیادہ کا ہم تقاضا نہیں کرتے، بس امیدوار میں ہمیں برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہماری سابقہ دوست جو ہماری ذاتی نقاد بھی ہوا کرتی تھیں، اور انھوں نے اس عہدے کا کبھی ناجائز تو کیا ، جائز فائدہ بھی نہیں اٹھایا، ہم سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ ہماری دوستی میں ان کا موبائل ہمیشہ رقیبِ روسیاہ کا کردار نبھاتا رہا مگر اس کے باوجود وہ ایک شریف خاتون ہیں۔ اگرچہ وہ یہ بلاگ نہیں پڑھتیں، مگر پھر بھی ہماری دعا ہے کہ خدا انھیں مناسب وقت پر جنت میں اچھی سی جگہ دے، آمین۔
انھیں ہم دھمکیاں تو دے چکے ہیں کہ اگر ہمارے ان کے درمیان گیلیکسی نوٹ سے بڑی کوئی شے آئی تو اس کا خون ان کی گردن پر ہو گا مگر بیک اپ پلان بھی تیار رکھنا چاہیے۔ دوست تو ہماری ایک اور بھی ہیں مگر اس بلاگ کی باقاعدہ قاری ہونے کے باعث ہم انھیں بڑا اونچا درجہ دیتے ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ ہم نے بڑی محنت سے ایک مضمون لکھا، اس کی نوک پلک سنواری اور اسے ایک ادارے کو بھیجا اور انھوں نے بھی اس بیچارے کو نظر انداز کر دیا۔ اب زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم انھیں فون کر کے آئندہ رسالہ نہ خریدنے کی دھمکیاں دیں، سو وہ ایک آدھ دن میں دینے والے ہیں۔
نرگسیت بڑی 'کول' شے ہوا کرتی تھی مگر برا ہو ایک خود ساختہ ماڈل صاحب کا کہ انھیں نے ہماری آنکھوں سے پردے اٹھا دیے۔ اب ہماری سمجھ میں آ گیا ہے کہ زیادہ میں میں یا ہم ہم کرنا کس قدر فضول بات ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم احمق لوگوں کے بارے میں لکھنا پسند کرتے ہیں اور اس کے لیے خود سے زیادہ موزوں ہمیں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
تو ہماری ایک دوست اور ہم ایک بس سٹاپ پر کھڑے اپنے اپنے مسائل میں گم تھے کہ یکایک ہمیں آنکھ کے گوشے سے کسی کی دلچسپ زلفیں دکھائی دیں۔
ہم(دوست سے): دیکھو ذرا اس خاتون کے بالوں میں کتنے اچھے 'کرلز' ہیں۔
دوست: ہاں واقعی، کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔
ہم: کاش میرے بال بھی ایسے ہوتے۔ تمھیں اس طرح بال رول کرنے آتے ہیں؟
اتنے میں ہم کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بانکے میاں ، جو کچھ دور ترچھی ٹوپی پہنے کھڑے تھے اور چہرے مہرے سے کافی معقول انسان دکھائی دیتے تھے، خاتونِ مذکورہ کو دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے خاتون کی ورٹکل سکیننگ کی، یعنی انھیں سر تا پاؤں، پاؤں تا سر اور پھر سر تا پاؤں دیکھا۔ ابھی ان کی تسلی نہ ہوئی تھی کہ ہم نے دخل در معقولات کی نامعقولیت کا اندازہ کرتے ہوئے نظریں ہٹا لیں۔تصدیق کے واسطے اپنی دوست کی طرف دیکھا تو وہ بھی ہونق چہرہ بنائے ہمیں دیکھ رہی تھیں۔
ہم دونوں نے بیک وقت اثبات میں سر ہلایا۔
میں: یار ہمارا ڈی ایس پی پراسیسر اتنا سست ہے۔ کیا خیال ہے، ان بھائی کو نہ جوڑ لیں پراجیکٹ میں، تصویروں کی پکسل بہ پکسل پراسیسنگ کرنے کے لیے؟ ہمارے تھکے ہوئے پراسیسر کی اوقات ہی کیا ہے ان کے سامنے۔
دوست: ہاں ہاں یار چلو ان سے پوچھتے ہیں، کیا پتہ راضی ہو جائیں۔
ہم: اور ہماری زندگی سنور جائے۔
دوست: یعنی ہمارا سسٹم حقیقت میں رئیل ٹائم ہو جائے۔
ہم: اور ہمیں گولڈ میڈل مل جائے۔
دوست: بھائی صاحب کو تو پروگرام بھی نہیں کرنا پڑے گا,کجا یہ کہ سنکرونس اےسنکرونس کے جھنجھٹ میں پڑیں۔
ہم: بس کہہ دیں گے، اس کیمرے میں دیکھتے رہیے، ابھی ایک خاتون آ رہی ہیں۔
لیکن ہوا وہی جو خیالی پلاؤ پکانے والوں کے ساتھ بالعموم ہوا کرتا ہے۔ ایک بس آئی اور یہ درِ نایاب ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ظالم ہمارا گولڈمیڈل کیا لے گیا، معلوم ہوا کہ سارا زمانہ ساتھ لیتا گیا۔ شاید خسرو نے صدیوں قبل ہمیں ہی بیٹھ کر ڈھول بجانے کی نصیحت کی تھی۔
اب ڈھول میسر نہیں تو نہ سہی، ڈفلی تو ہم بجا ہی لیتے ہیں، سو وہ بجا رہے ہیں۔
نوٹ: پراسیسر کا نام اور بھائی کی ٹوپی کا رنگ رازداری کے خیال سے ظاہر نہیں کیا گیا۔


Wednesday, June 12, 2013

منکہ ایک آزاد ایلف

اگرچہ بے رنگ، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
تو سند کے طور پر ہم بیان کرتے ہیں کہ آج سے ہم ایک آزاد اور خوش باش ایلف ہیں، مجبور و محکوم ایلفس سے بالکل جدا۔ لوگ باگ نوٹ کر لیں، مؤدب رہیں اور ہم سے بحث کرنے سے پرہیز کریں کہ اب ہمارے پاس جواب دینے کا وقت بھی ہے اور دلائل گھڑنے کے لیے تھوڑا بہت دماغ بھی۔ اپنے پسندیدہ موضوعات کی فہرست ہم جلد مرتب کیے دیتے ہیں، اگر ہم ان میں سے کسی موضوع پر تقریر کرنے لگیں تو سر ہلانے اور کبھی کبھار جی جی کرنے کے علاوہ کچھ بھی کرنا نہایت خطرناک ہے۔ وہ دماغ جو ہم نے چار سال سینت سینت کر رکھا، اب استعمال میں آئے گا۔
اب یہاں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آزاد، مگر کس سے؟ کچھ کم فہم لوگ تبصرے کر چکے ہیں کہ بی بی، آپ آخر پابند ہی کب تھیں اور بھلا کب آپ نے کسی قسم کی ذمہ داری قبول کی جو آپ اب آزاد ہوئی ہوں۔ تو ہم یہ کہتے ہیں کہ آزادی بذاتِ خود ایک احساس ہے، ضروری نہیں کہ کسی شے سے ہی آزاد ہوا جائے۔ لیکن ہمارے فلسفوں کو اگر دنیا آرام سے قبول کر لے تو پھر رونا کس بات کا ہے۔
اس دورانیے سے ہمارے بہت سے سنہرے خواب وابستہ ہیں، جو کہ ہم تقریبا اس وقت سے دیکھ رہے ہیں جب ہمیں ڈرا دھمکا کر سکول میں داخل کرا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ تمام عرصہ ہم نے پڑھتے کم اور خواب دیکھتے زیادہ گزارا ہے۔اب ہمیں ذرا عملی مشاغل اختیار کرنے پڑیں گے کہ ہم ایک نام نہاد عملی زندگی میں داخل ہو چکے ہیں۔
کچھ چھوٹے موٹے کنکر ابھی ہماری راہ میں ہیں، ان کو اصولا دھیان میں رکھنا چاہیے۔ پچھلے چار ماہ میں ہم پراجیکٹ کا کام مکمل کرنے کے کافی دعوے کر چکے، اب سنجیدگی سے کام کرنا پڑے گا۔ خیر اس کو ہم بوجھ نہیں سمجھتے بلکہ اس کی خاطر خوشی خوشی پریشان ہوتے ہیں۔ پھر ہمیں کسی کمپنی کو آمادہ بھی کرنا ہے کہ وہ ہمیں اپنا (یعنی کمپنی کا) بیڑا غرق کرنے کی اجازت اور توفیق دے۔ اگر فی الحال ہمیں اپنے میدانِ کار سے متعلقہ کام نہ ملا تو پھر کچھ اور کرنے کی کوشش کریں گے۔ کسی رسالے یا اخبار کا ایڈیٹر بننا ہمارا پرانا شوق ہے۔ ایڈیٹروں کے طلبگار اشخاص اور ادارے بلاجھجھک ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ بلاگ کے ذریعے رابطہ کرنے والوں کے لیے ہم ذرا کم تنخواہ پر کام کرنے پر بھی تیار ہو جائیں گے۔ ادبی رسالوں بالخصوص کلاسیکی ادب کی خدمت کرنے والے مجلوں کے لیے خصوصی رعایت۔ چونکہ ہم دو دو چار کرنے والے انسان ہیں تو یقینا رسالے کی معاشی حالت میں بھی فرق پڑے گا۔
 ایک نسبتا کم پرانا شوق کھیلوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ویڈیو گیمز کھیلنے کا ہمیں خوب تجربہ ہے۔ اگر ہمیں کسی گیم کی تیاری پر لگا دیا جائے تو ہم اس کی کہانی بھی لکھ لیں گے اور مختلف کرداروں کی آوازیں بھی نکال اور نکلوا لیں گے۔ کوڈ لکھنے کو تو خیر ہم ورڈپریس والوں کی طرح غزلیں کہنے کے برابر سمجھتے ہیں،جملہ پابند و آزاد نظموں سے معذرت کے ساتھ۔ فلموں اور تصویروں کا تجزیہ بھی کر لیا کرتے ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو گرافکس کے لیے الگ پراسیسر بھی بنا سکتے ہیں۔
لکھتے لکھتے ہی خیال آ رہا ہے کہ ہم انسان کم اور منہ اور دانتوں کے جملہ مسائل کا حل کوئی منجن زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ بات یہ ہو رہی تھی کہ پچھلے دنوں ہم نے کافی سارا خیالی پلاؤ پکایا، اپنی ان تعطیلات کے مشاغل کے بارے میں سوچتے سوچتے، مگر ازلی سستی کے مارے کوئی بھی خیال لکھا نہیں۔ اب سب بھول بھال گئے، سو سب کچھ دوبارہ پکانا پڑے گا، اگرچہ وہ امتحانات کے دوران چھٹیوں کے بارے میں سوچنے کا لطف اب کہاں۔ کڑوا سہی مگر سچ ہے کہ پرچے سے پچھلی رات الٹی سیدھی کتابیں پڑھنا اور فلمیں دیکھنا اب کہاں نصیب ہو گا۔
تو ہمارے ایجنڈے کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔
۔۔۔ اگرچہ اب ہم رات کو سونے کے بعد آرام سے دوپہر کی خبر لا سکتے ہیں اور اس کے لیے پطرس کی طرح نماز پڑھنا بھی ضروری نہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ اب عمر کے اس حصے میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کر ہی لیں۔ کب سے ارادے باندھ رہے ہیں کہ صبح سویرے اٹھ کر دنیا کی سیر کریں گے۔ دیکھیے، شاید اب کے کر ہی لیں۔
۔۔۔دنیا کی ذرا زیادہ بڑے پیمانے پر سیر کرنے کا بھی ہمارا ارادہ ہے، جس قدر جیب اور ابا اجازت دیں۔ شاید حسرتوں کا روما، حیرتوں کی دلی دیکھ آئیں۔ خدا اس شہر اور اس کے باسیوں پر اپنا کرم کرے، ہمارے قدم رنجہ فرمانے سے پہلے بھی اور بعد بھی۔ ایسا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ کے ساحلوں پر تنِ تنہا تو گھوم نہیں سکتے، سو وہاں سے بھی لوگوں کا مغز اور گرمی کھا کر لوٹ آئیں گے۔
ویسے اب اس قدر ناشکرا ہونا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہاں ہم اور بھی بہت سی اشیائے خوردونوش ہڑپ کریں گے جو ہر پھیرے میں کیا کرتے ہیں۔ مگر قدرتی حسن دکھائی دینے کا کوئی خاص امکان نہیں۔
۔۔۔واپس آئیں گے اور ایک عدد سفرنامہ تحریر کریں گے، یادداشت سے کہیں زیادہ تخیل کے بل بوتے پر۔ پھر اسے زبردستی لوگوں کو پڑھوائیں گے۔
۔۔۔کسی اور صنف میں بھی طبع آزمائی کریں گے اور اس کی تشہیر بھی کریں گے۔ طریقہ برائے تشہیر: دیکھیے نکتہ نمبر 3۔
۔۔۔پورا دن سوئیں گے، روز آئسکریم کھائیں گے ،رات رات بھر فلمیں دیکھیں گے لہذا خوش رہیں گے۔بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔
خوش رہنا اس ایجنڈے کا مرکزی نکتہ ہے، آرام کرنے اور کھانے پینے کے علاوہ۔ خدا ہمیں اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور حالات سازگار بنائے، آمین۔

Friday, June 7, 2013

For the sake of old times, and record-keeping

Farewells are such a clichéd but integral part of life. The farewell itself might be acceptable, but people insist on saying the same things over and over again. Ignoring a book I am supposed to read for a dangerous paper, I'll try to gather my thoughts and compose something coherent.
A span of four years is-well, a long span, honestly. Now I look back and I am amazed that I lasted such a long time in a place with which I have lots and lots of compatibility issues. Still, mine is an exceptionally sad existence, for I can confess that I have no feeling of belonging whatsoever. No sense of attachment to the place I have called my college for such a long time, for sake of a better word.
All in all, the number of people who made it bearable can be counted on the fingers of one hand, and the number of teachers I intend to remember twenty years into the future can be counted on one alone.
I might have learned some important things there, but I have forgotten them among the load of completely useless things I was forced to cram in my mind. Besides, I realized that quiet people will always be quiet, so it is better for them to find a corner where they can be comfortably so.
Lest I become too ungrateful, I should mention that it was this place that introduced me to a language I personally place on the same pedestal as Urdu, even though it does not have a Mir of its own.
Most importantly, I actually found some people who can tolerate me for really long periods of time. What's more, they tolerate me with patience and compassion. They almost understand the entire range of  oddities, complexities and grave problems that make up Spook, such as: No one can sip through Spook's straw. Spook can not come to college every day. Spook must laugh at every senseless, lame or awkward joke. Spook is really, actually, seriously slow.
Still, they understand, and what is most amazing, some of them have a way of summing things up that lead to an unexpected increase in Spook's self knowledge.
The extremely refined cosmological constant may be considered an evidence of a divine entity, but I consider the case of my having friends who share my tastes a stronger proof of His existence.
There is one who has been a constant source of knowledge and guidance all these years. She is the person I normally turn to when I need to understand anything pertaining to science, maths or literature. She is the only soft hearted critic in the entire world, I think. The lurking danger of a future in a separate place has shown me that her absence will be detrimental to my tastes: in a couple of days I have gone form the usual sanam mera sukhan soon aashna hay and teri yay kam nigaahi neemcha hay type to this class of poetry:

جہاں پھولوں کو کھلنا تھا ، وہیں کھلتے تو اچھا تھا

تمہی کو ہم نے چاہا تھا، تمہی ملتے تو اچھا تھا

Still, with this taste, there is a real danger of me publishing a book and becoming really, really famous. She might be sorry for ditching me, then.
Then there is one whom I usually pick arguments with. We argue for hours on end, on every sort of topic, from chess to fiction and from relativity to human rights. We think in astonishingly similar ways and have awkwardly similar hopes and fears. We both get obsessed and un-obsessed with the strangest things as quickly and as often as other people get with new fashions. I  might add that we have plans for the future together. After saving some money through the usual dreary jobs, we shall buy a van and run it on one of the local routes. I'll be the drive and she'll be the conductor because she enjoys shouting 'Sadddaarr Saddaarr Saddaarr'.
There is one, whom I might have been able to befriend, had I been able to ditch the critic, though the two of us do not have much in common, apart from a love of books. Also, there is the vast difference of class between us, which always reminds me of Iqbal: kargas ka jahan or hay, shaheen ka jahan or. The problem solver through and through. She can be described as a modern day Asghari with a gold medal. One that she did NOT acquire through rote learning, contrary to the belief of the general and unavoidably misogynistic public. In one of the toughest disciplines of engineering. In one of the most competitive places around. It is only logical that I be in awe of her.
There is another one who  has done it ALL: Watched every movie. Visited every place in the city. Aced every paper. Seriously, she has more common sense than three normal people or ten Spooks combined together.Her tastes and opinions are absolutely the best in everything, from shirts to shoes to public dealing to movies. Besides, she can teach slow students,as I still remember that she patiently explained a circuit with dozens of amplifiers to me a couple of hours before the exam. Even though I disliked amplifiers, I reproduced it nicely in that paper, and that is in no way the only instance of her teaching me.
There is one with whom I have discussed books and books, in the middle of dangerous classes.
Then there are some whom I constantly have to lecture to take it easy. I have often been worried about their blood pressure, more than I am ever worried about my assignments.
I remember recommending Georgette Heyer to one, and Suzanne Collins to another.
Then there is a bus fellow. I don't reply to 80% of her queries about my whereabouts.
With a lot of them, I have laughed and joked and talked during seemingly infinite lectures. With others, during the dreadful hours before the exams, in this common room and that.
There are some who shall not be graduating this year. The saat number psychoanalyst. The one whose cell number I still have with the 'gr' tag in my mobile. Her blog inspired me to create one in the first place. The one whom a friend calls 'shair o shaiiri wali larki.' I spent a short time with them, but they are my friends, nevertheless. Even though I am one of the laziest persons around, and particularly bad at keeping in touch.
Some of them are officially my best enemies forever. Official or not, all of them have been a source of strength, common sense and inspiration and a breath of fresh air, in a place particularly devoid of all these things. To borrow Bilbo's words, I don't know half of them half as well as I should like. Still, I can safely say that my girls  are some of the finest of the specie, and I have nothing but the highest hopes and the absolutely best wishes for them.

Sunday, May 26, 2013

The Girl who Cried Error

Although I staunchly refuse to learn anything practical, important or serious from life in general and my life in particular, there are some observations I have made over the years. One of these deals with the fear of failure, which ought to have a proper name in my opinion.
 Now it might be an unusual thing to say but I believe that failure is, for the majority of population, beneficial. It introduces human beings to humbleness, which all but very few of people I have come across direly need. It is one of the best teachers around, for there is no better way to learn something then to attempt it and fail in the attempt.
 Forgive me, my reader, if I seem to be generalizing too much. What I mean to say is that there is no better way to learn programming than to write code with errors. Wait, there is: to write code with bugs. Oh, the joy of inserting print statements line by line! Though HDLs belong to a group of nice languages, their status cannot be compared to the eternally beloved C++, just because they do not possess the simple print statement.
I might have written something about a final year project some time ago. Thing is, it is a rather important and necessary part of my otherwise-devoid-of-important-things life. The poor thing might get a full post to itself one of these days.
So, as I was saying, there is a project and I am responsible for a part of it.To be honest, I am rather the I.T. girl of the team, the one who configures software and debugs problems related to the os, the underlying kernel and the io ports. Things that normal people consider too boring for their time.
Anyways, I have often observed that fear of failure can hold you back way more than actual failure can. Some time ago, I was climbing down a flight of stairs. There was a long wire in my way.Now it so happened that I was trying so desperately to avoid getting tangled in the wire that I actually slipped on the stairs and slided down some 5-6 steps.
A normal person might have been humiliated, I guess. Not yours truly. I just got up with my head held high, ignoring the pain in my knee and the dirt all over my clothes and said 'I am all right' to my mother in a reassuring tone.
Of course, normal people might be embarrassed if their mother would say in a shop loudly while looking at a pair of elegant shoes 'Dimagh durust hay! Dobara girna hya kia!'.
Again, yours truly is just irked,  not embarrassed.
So our project was put on hiatus due to a problem we supposedly had. The size of the data we had to process was larger than the memory block allocated by the underlying API. So I decided, of course, to change the default memory mapping of the system. I tried this, and I tried that, and nothing worked. By now I am qualified to write a book on '101 ways of changing memory map for API X'. It goes without saying that all these methods are unsuccessful, and almost all of them cause the processor to throw tons of error and hang.
Other steps taken by the persistent spook:
1. I bugged my team mates and told them that we might be stuck at this problem forever, when I am quite aware of a member's horror for infinite loops.
2.I dragged my team mates to a far away place in the sweltering heat of May and bugged some outsiders there. A nice person really tried to help us.
3. Then I tried to make some sense of the entire thing, something I absolutely despise. The only thing I am any good at are 'jugaars'; in fact, the entire project is nothing but a collection of jugaars.
Now that is a skill I might add to the list of my professional skills. Reminds me, I have a serious interview in a couple of days. The guys at that place better hire me, or I shall suffer from a broken heart. Need I remind anyone of he 'hell hath no fury....' saying? If they don't employ me, I'll have my revenge. When I am the commissioner of the city.
As for the mapping problem, there wasn't a solution because, as it turns out , there wasn't a problem at all. The default configuration worked like a charm, once I tried it, for in my over-zealous state, I had messed with it without any regard for the actual, physical memory of the system.
Tip for the future: before getting hyper about a problem, be sure to confirm that the problem exists in the real world.

Sunday, May 12, 2013

کنڈل ٹچ عرف شکر

خدا ہر شکر خورے کو شکر دیتا ہے، اور وہ بھی اس کے پسندیدہ برانڈ کی۔ تو مجھے بھی میری شکر مل ہی گئی۔ اب لامحدود خوشی کے لیے کوئی تحفہ دینا چاہے تو کم کم آپشنز باقی ہیں۔ ایف پی جی اے یا ٹھیک چھ انچ ہیل کے جوتے۔





اس میں اردو کے حروف کچھ ایسے دکھائی دیتے ہیں:۔

 اپڈیٹ: اس میں اردو کی ٹیکسٹ فائلیں بھی بالکل درست دکھائی دیتی ہیں، اگر ان کو درست فارمیٹ میں تبدیل کر لیا جائے۔
میرا ایک پرانا خواب تھا، ایک ایسی کتاب کے بارے میں جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ دراصل زیادہ کہانیاں پڑھنے سے ، پڑھنے کی رفتار وہاں تک جا پہنچتی ہے کہ ضخیم سے ضخیم ترین کتاب بھی اس کا ساتھ نہیں دے پاتی۔ ڈھونڈنے پر بھی ایسی کتاب نہ ملی۔
خیر یہ تو پرانی بات تھی۔ اب کچھ عرصہ پہلے خیال آیا کہ کتابیں تو دنیا میں لامحدود ہیں، اصل باٹل نیک انسان کی پہنچ اور استطاعت ہے۔ پھر اندازہ ہوا کہ اس قدر کتابیں ایک عدد زندگی میں نہیں پڑھی جا سکتیں۔ کس قدر پریشان کن اور وحشت ناک خیا ل ہے!۔
جب کچھ عرصہ موبائل کی چمکدار سکرین پر کتابیں پڑھ پڑھ کر آنکھیں پھوڑ لیں تو فیصلہ ہوا کہ کوئی  بہتر متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ اب امیدوار دو رہ گئے تھے، ٹیبلٹ اور ای ریڈر۔ ٹیبلٹس کی خوبی یہ ہے کہ یہ بڑے سائز میں بھی دستیاب ہیں۔ ان پر اردو کی سکین شدہ کتابیں بہتر طریقے سے پڑھی جا سکتی ہیں۔ ان کے لیے بہت سی ایپس دستیاب ہیں۔ رنگینی کا عنصر بھی ٹیبلٹس میں ہی موجود ہے۔
لیکن مجھے چونکہ بنیادی طور پر صرف کتابیں پڑھنی ہیں اس لیے ای ریڈر کا انتخاب کیا۔ اس کی ای انک ٹیکنالوجی آنکھوں پر بوجھ نہیں بنتی اور ڈسپلے میں بہت کم پاور استعمال ہوتی ہے۔ روز روز بیٹری کون چارج کرتا پھرے۔
امیزون کا کنڈل ٹچ میری توقع سے بہتر نکلا، یہاں تک کہ دیکھنے میں بھی۔اس میں صفحہ پلٹتے ہوئے ایک جھماکہ ہوتا ہے، جسے پہلی بار دیکھنے پر میں بہت خائف ہوئی۔ لیکن اس کی آدھے گھنٹے میں ہی عادت ہو جاتی ہے۔
اردو کی کتابوں کا مسئلہ ہم اردو والوں کی طرح ذرا ٹیڑھا ہے۔ سکین شدہ پی ڈی ایف کو نوے درجے پر گھما کر یعنی پورٹریٹ موڈ میں پڑھنا پڑتا ہے۔ اور ایک صفحہ بہت سے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے۔ اب مجھے شاید اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو پر ہنوز ٹیبلٹس کی اجارہ داری ہے۔ شاید کوئی پی ڈی ایف ایڈیٹر ڈھونڈ ڈھانڈ کر خود ان فائلوں کی کاٹ چھانٹ کرنی پڑے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو کی ٹیکسٹ فائل بڑے مزے سے کھل جاتی ہے۔ فانٹ بھی دلکش ہے، بہ نسبت اس بھیانک پچکے ہوئے فانٹ کے جس میں اردو عام کمپیوٹرز میں دکھائی دیتی ہے۔ فانٹ کو بخوبی چھوٹا بڑا کیا جا سکتا ہے۔
بیٹری ٹائم ابھی تو کافی خوش کن ہے۔بارہ چودہ گھنٹے کے آف لائن استعمال کے باوجود اس کے بیٹری آئکن کا صرف ایک سیل کم ہوا ہے۔ اگر یہ لگاتار چار دن میرے پڑھنے کا ساتھ دے سکے تو کیا ہی بات ہو۔ اگر ایک ہفتہ چل گیا تو اس پر بیعت ہونا پڑے گا۔ امیزون والے اشتہار میں بڑا بڑا لکھتے ہیں :' بیٹری ٹائم، دو مہینے' نیچے منحنی سے فانٹ میں لکھا ہے: 'روزانہ آدھے گھنٹے کے آف لائن استعمال کی بنیاد پر' ۔ حد ہو گئی بھئی۔ کیا پریشر ککر ہے کہ روزانہ صرف آدھا گھنٹا استعمال ہو گا۔
کنڈل ہے تو اسے روٹ بھی کیا جائے گا، کبھی نہ کبھی۔ فی الحال یہ نیا ہے اور اس کا معاشرے میں ایک مقام ہے۔ چھوٹے بچوں کو اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں، وہ صرف اسے دور دور سے دیکھ سکتے ہیں۔
ملا تو یہ پاس آؤٹ ہونے کے تحفے کے طور پر ہے مگر اب پاس ہونا ذرا مشکوک ہے، خصوصاََ کنٹرولز میں۔ خدا خیر کرے اور تمام نالائق بچوں کو ان کی اماں کی دعاؤں کے طفیل پاس کرے، آمین۔ ویسے یہاں شک پہلے بھی تھا، سمسٹر کے پہلے دو ہفتوں سے۔ اب جب کہ بی ایس ختم ہونے والا ہے تو اندازہ ہو رہا ہے کہ امتحان اور ٹیسٹ دینے اور اسائنمنٹس بنانے کے لیے مجھے نہیں بنایا گیا۔ جب سے یہ میرے ہاتھ لگا ہے اس وقت سے دنیا کے تمام کار ہائے نمایاں و غیر نمایاں ٹھپ پڑے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک چیز جسے فائنل ائیر پراجیکٹ کہتے ہیں، کھانا کھانا، رات کا کھانا پکانا بلکہ رات کو اشیائے خوردونوش کا ستیاناس کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس کو کہانیاں بھی نہیں سنائی جا سکتیں۔ اس پر کہانیاں پڑھنے سے فرصت ملے ، تو نا :۔
تھا جی میں کہ دشوارئ ہجر اس سے کہیں گے
پر جب ملے ، کچھ رنج و محن یاد نہ آیا



Thursday, April 18, 2013

A thing for fiction

'A woman must have money and a room of her own if she is to write fiction'.
 These days, I am left pondering the truth of this statement at times.
Writing fiction has always been a distant dream for me. Distant because at no point in my life have I possessed a skill for story telling. Its not as if I have never ever written a story; there must be about a dozen manuscripts amid the chaos I call my stuff. Thing is, they all have extremely boring and clichéd and predictable story lines. If presented in a competition, they tend to fall at a place that may range from n to exp^n.
 Story reading, on the other hand, has been my *sole* interest in life, for the greater part of it. Story writing, on the other hand, still eludes me.
There has been an idea for a story in my mind for a couple of days, but I have not yet found the time to weave them in a story due the numerous ghams of  rozgar. (Hint: reference to the first requirement, as laid down by Woolf).
Why I should write the story down: Some loyal friends might be amused and entertained.
Why I should not: I was simply not meant to be a story teller. Sigh.
'A room of one's own' does seem like a nice find. I shall read it at first opportunity,as soon as that arrives.
P.S. It seems an unexpectedly awesome find, for I do not count myself a fan of Virginia Woolf or/and To the Lighthouse, her only work I have read so far.

Friday, March 22, 2013

The perks of parallel processing

Yesterday was a dukkhi day. Dukhi because sad simply falls short of the expressing our grief  and dismay require.
I might have mentioned it earlier, but let me emphasize this  again : The writer has an extraordinary talent for destruction, be it biryani or a beagle board that has the misfortune to fall in her hands. 
Technically speaking, this is the middle of the end, since we are halfway through fyp. Sometimes I realize that I am going to miss my college enormously. The holidays, to be exact. How I am going to play truant in the future is a source of constant worry to me. I also picked up some like-minded and almost-as-dim-witted-as-me people there, who have always dissuaded me from suicidal plans, albeit half-heartedly.
On the day before yesterday, I was a happy elf. A free elf, almost. Working with a beagle board xm has been a very interesting and rewarding experience, and it has rekindled an old dream, of being an embedded system designer. I might even write a couple of posts about the general outlines for working with it, as well as the problems we encountered and are still encountering, provided that I can summon the energy.
This time, we decided to divide the work among our three selves. Being the person who finds the most faults with literally everything, I have been appointed as the official choota (sans the public dealing, thankfully). While the others watch and record videos and do interesting stuff, I try to impress people with the fact that a complete os can run on 5 V on a 3x3 inch board. 
To the point now.
Thing is, parallel processing might be the thing for actual processors, but it certainly isn't for us. What doing 3 different things in parallel has brought us is the chance to get stuck at three different points simultaneously.
When working as a group, we usually have one problem at a time, so this is a new achievement for us. In a way.
Rants aside, I should document my problems.
As the icing on the cake, I received a new and strange 'kernel panic' error yesterday. Since then, my work is officially on standstill. Maybe I need to change my focus for a couple of days. Middlemarch might be a choice, for I am a fan of George Eliot and Dorothea's story can not be more tragic than mine.



Friday, January 11, 2013

یہ پیارے میر صاحب کی زباں ہے


آخر کار ہم نے بھی انگلی کٹوانے کا فیصلہ کر لیا۔
انگلی اس باعث کہ نام لکھوانے کے لیے اتنا ایثار تو لازم ہے، کچھ یہ بھی کہ ہماری اردو کے ایک حد سے زیادہ متحمل نہ ہم خود ہو سکتے ہیں اور نہ ہمارے مبینہ قارئین۔(اگر وہ بالفرض وجود رکھتے ہیں تو)۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اردو ہماری زبان پر تو چڑھی ہوئی ہے مگر ہمارے قلم پر نہیں اور یہ بالقصد ہے کہ ہم اردو کو اس موذی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ، مبادا موجودہ زمانے کے کوئی میر صاحب ادھر آ نکلیں اور اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کی خاطر اپنے ڈیسکٹاپ کی تار یا لیپ ٹاپ کی بیٹری کھینچ کر نکال دیں۔
ویسے بھی ہمارے بلاگ کی زندگی کا بنیادی مقصد اپنے تعلیمی ادارے کی زندگی کو بے خوف و خطر برا بھلا کہنا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کہنے میں بھلے کا فقدان اور برے کی بہتات ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ہماری یونیورسٹی سراپا شر ہے۔ وہاں سے ہم نے جس قدر سیکھا ہے، اور کہیں سے نہیں سیکھا۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم پیدائشی نقاد واقع ہوئے ہیں مگر بول اٹھنے سے خوف کھاتے ہیں۔جب لوگ اظہارِ تاسف کرتے ہیں کہ ہماری موجودگی ان کی بے مثال حسِ مزاح کے آڑے آ جاتی ہے تو ہمارا جی تو بہت چاہتا ہے کہ کہہ ڈالیں : 'جنابِ عالی! آپ اپنی ظرافت کے آگے بند نہ باندھیے، ہم پانچ منٹ کو تصور کر لیں گے کہ ہم کسی سڑک کے کنارے کھڑے ہیں' مگر ہماری زبان بند رہتی ہے۔ پس جب ہم لوگوں کے طعن و تشنیع، ریشہ دوانیوں، بے مروتی اور قطعی پوائنٹ لیس جوکس کا، جن کا نشانہ ہماری مسکین ذات ہوتی ہے، برملا اور دوٹوک جواب نہیں دے سکتے، جو اپنے تئیں ہمیں بہت اچھی طرح دینا آتا ہے، تو ہم انھیں اپنے دل اور بلاگ میں سخت سست سنا کر اپنا اعتماد بحال کر لیتے ہیں۔ اردو میں لوگوں کو برا کہنا ذرا معیوب معلوم ہوتا ہے۔
پھر یہ بھی کہ اردو ادب کا ہم اردو کتب کی گراں قیمتی کے باعث دور دور سے ہی ادب کرتے ہیں۔ اوسطاََ اردو کی ایک کتاب کی قیمت میں تین انگریزی کی کتب آ سکتی ہیں۔
اردو کے خطرے میں ہونے کا نعرہ ہم  ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں۔ تواتر سے ذکر کیا جاتا ہے کہ اردو کو قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا مگر یہ سرکاری زبان نہ بن سکی۔ اردو کی زبوں حالی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ انگریزی کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر اس پر ہماری ذہنی غلامی اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کے طعنے کا تڑکا بھی لازمی ہے۔
احساسِ کمتری کے موضوع پر اگر بحث کی جائے تو بہت ہی دور نکل جائے گی، لہذا اس معاملے پر ہم فی الحال خاموش رہتے ہیں۔
بات جو ہماری کم کم استعمال ہونے والی عقل میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ زبان صرف زبان ہوتی ہے، تبادلہء خیال کے لیے ایک آلہ۔ کسی بھی آلے کی طرح اس کا مثبت استعمال بھی ممکن ہے اور منفی بھی۔ کسی غیر ملک اور علاقے کی زبان سیکھنے سے انسان کو وہاں کی تہذیب و تمدن ، رسوم و رواج، طرزِ معاشرت اور اندازِ فکر کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا نادر موقع ملتا ہے، جس کا نعم البدل ڈھونڈنا ایک عام انسان کے لیے قریباََ قریباََ ناممکن ہے۔ ہم میں سے کتنے افراد دور دراز مقامات کا سفر کرنے، قیام کرنے اور مقامی لوگوں میں گھل مل کر ان کے طرزِ زندگی کو جاننے کی استطاعت رکھتے ہیں؟ تو جس شے کو انگریزی زبان سمجھ کر مطعون کیا جاتا ہے وہ دراصل انگریزی کلچر ہے۔ اور اگر ہم من حیث القوم اپنا کلچر تبدیل کر رہے ہیں تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہمارے کلچر میں کوئی مسئلہ ہے یا ہم میں۔
ہمیں جذباتی ہونے یا انگلیاں اٹھانے کے بجائے سنجیدگی سے مسئلہ ڈھونڈنے اور اس کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ اگر اردو ہمیں پسند ہے تو لازمی نہیں کہ ہم اسے دفتری زبان کا درجہ دلوانے پر سارا زور صرف کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا ماحول پروان چڑھایا جائے جہاں ہر شخص اپنی مرضی کی زبان بلا کسی احساسِ کمتری یا برتری کے بول سکے اور تعصب سے بالاتر ہو کر دوسروں کو بولتے ہوئے سن سکے، چاہے وہ زبان اردو ہو یا عبرانی۔
اردو کی ترویج اور اشاعت کا آج کے زمانے میں یہی طریقہ ہے کہ عوام کو اچھی اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے کی طرف راغب کیا جائے۔
البتہ ایک معاملہ جس میں ہم تعصب برتنے پر مجبور ہیں ، وہ رومن اردو کا ہے۔ رومن اردو پڑھنے کو ہم کارِ گراں اور لکھنے کو کارِ عذاب سمجھتے ہیں۔ مگر گزشتہ عرصے میں اردو کے رسم الخط کی مناسب سپورٹ نہ ہونے کے باعث اس نے عوام و خواص میں اپنی جڑیں تشویشناک حد تک گہری کر لی ہیں۔ اب کچھ عرصے سے صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے، اردو کے کچھ ایسے شیدائیوں کے باعث جو ہمارے برعکس باتیں بنانے اور تقاریر جھاڑنے کے بجائے کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
بحث ایک طرف مگر سیدھی سی بات ہے کہ اردو ہماری اپنی زبان ہے۔ بے شک ہم نے اسے سی پلس پلس اور ویری لاگ کے ساتھ باقاعدہ طور پر اپنی پسندیدہ زبانوں کی فہرست میں نہیں رکھا ہوا مگر اس کے متعلق ہمارے احساسات کچھ ایسے ہی ہیں جیسا کہ اپنی اماں کے متعلق۔ ہر چند کہ انھیں ہماری بات سننے کی عادت نہیں مگر جس حوصلے سے وہ ہمیں برداشت کرتی ہیں وہ انھی کا خاصہ ہے۔ ہم اردو سے بھی ویسی ہی وسیع القلبی کے متمنی ہیں ، جبھی تو اپنا قلم اور کی بورڈ اس پر تیز کر رہے ہیں۔

Saturday, January 5, 2013

A reservoir of coolness

It is cool to be cool, but one can be too cool, especially during the winters. Particularly when the cool person has an exam to consider.
For some time, I have been thinking about trading off my calm, at least some of it, with someone, anyone.Anyone who might be willing to trade off some anger, some restlessness.
Getting angry at the right person at the right moment to the right degree might be extremely difficult, but getting angry at least a couple of times a month is necessary. The guilt or innocence of the object at which one's anger is directed is totally irrelevant and does not matter at all. Otherwise, one is in the danger of completely forgetting the noble and necessary art of being angry, which is very much required in this inconsiderate world.
The case of being calm is similar. Most of the time, it is quite nice, feeling at rest with life, the universe and everything while blood pressures are getting high left right and center. But at critical times, the lack of adrenaline is dangerous.
I seldom attend college but when I do, I make sure that I go on a day when going is a complete waste of time. College is not a waste of time all the time; various functions are held, too. Occasionally, I attend one of these, too. Again, I ensure that I miss every function that is worth attending.
Afterwards, I envy the people who got the chance to meet the chief guest. I am not exactly a die-hard fan, but I have never met a scholar of his stature in real life.
So I guess I'll just construct some dreams for laying the foundation of the morn, in accordance with his advice.
Missing the interesting part of a literary session is an old habit with my royal friend and me, nothing new in that.
These days I am a fan of Hafiz. Some of the things I do regularly these days are :1. Wish I was literate enough to read him. 2. Recite these line with varying amplitude (warning: poetry ahead, kindly skip the rest of the post if you don't enjoy it):

دل میرود ز دستم صاحب دلان خدارا
دردا کہ راز پنہان خواہد شد آشکارا
در کوئے نیک نامی ما را گزر نداند
گر تو نمی پسندی تیغیر کن قضا را
سرکش مشو کہ چون شمع از غیرتت بسوزد
دلبر کہ در کف او موم است سنگ خارا